ہمارے ملک کا نوجوان اور کاروبار

منگل 11 اگست 2020

Rana Muhammad Rizwan Khan

رانا محمد رضوان خان

پاکستانی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر نوجوان یہ سوچتے ہیں کہ بس ڈگری لے کر نکلوں ،کوئی بھی کام شروع کروں اور کامیاب بزنس مین بن کر جلد از جلد کامیابیوں کی بلندیوں کو چھوُ لوں ۔لیکن کیا وجہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اپنا یہ خواب پورا نہیں کر پاتی بلکہ اپنی ڈگریوں کو ہاتھ میں لیے نوکری کی تلاش میں لگی رہتی ہے۔

یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے جس پر موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب کو خصوصی توجہ دینی ہوگی۔کیونکہ وہ بلا شبہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اور ان کی صلاحیتوں کے صحیح استعمال کو نہ صرف اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہیں بلکہ اپنا سب سے بڑا ٹرمپ کارڈ کہتے ہیں۔اور یہ نوجوان ہی تھے جنہوں نے اپنے ووٹ اور امیدوں کے کندھوں پر بٹھا کر عمران خان کو اقتدار کی کرسی پر لا بٹھایا ہے۔

(جاری ہے)

اب یہ ایک نادر موقع ہے کہ وزیر اعظم اور انکی نوجوان ٹیم ملک کے دوسرے نوجوانوں کے لیے ایسا سسٹم اور میکنزم ڈویلپ کرے کہ نہ صرف ہمارے باصلاحیت نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہوں بلکہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔اس سلسلے میں میری ریسرچ کہتی ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی نیا کاروبار شروع کرنے میں تین بڑی رکاوٹیں یا مشکلات درپیش ہیں جو نہ صرف نئے آنیوالے نوجوانوں کو بد دل کر دیتی ہیں بلکہ انکی صلاحیتوں، پیسے اور وقت کے ضیاع کا سبب بھی بنتی ہیں۔


۱- مشکل ترین کاروباری قوانین اور نکما ترین عدالتی سسٹم
۲- سرمایہ کاری کے حصول میں مشکلات اور سخت ترین بینکنگ سسٹم
۳- ہنر مند لوگوں کی کمی
 جب کوئی نوجوان پاکستان میں کاروبار شروع کرنے کا سوچتا ہے تو اس کے پاس بہت ساری معلومات نہیں ہوتی جیسا کہ (اس کاروبار سے منسلک) حکومتی قوانین کیا ہے یا پالیسی کیا ہے یا پھر یہ کہ اسے کس محکمہ سے کون سی اجازت درکار ہے۔

کدھر سے این او سی لینا ہے۔ بدقسمتی سے اس کے بارے میں ایسا کوئی ایک پورٹل یا ون ونڈو آپریشن نہیں ہے جہاں سے ساری معلومات باآسانی مل جائیں اور ایک ہی کاؤنٹر سے نیا کاروبار کرنے والوں کو سارے اجازت نامے اور این او سی ملیں تا کہ بغیر کسی تاخیر کے وہ کاروبار شروع کرے اور پھر آگے چل کر اسکو ضروری اور پیچیدہ پیپر ورک میں بھی لے لیا جائے تا کہ شروع کی مشکلات کو کم سے کم کیا جائے۔


افسوس کہ ساتھ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بہت سے ایسے قوانین ہیں جو شاید پاکستان بننے سے پہلے کے ہیں۔ہمیں تین چار محکموں سے ایک کام کے لیے لائسنس یا این او سی لینے پڑتے ہیں۔اندازہ لگائیں نیا آنیوالے بزنس مین نوجوان اپنے آئیڈیے اور نئے عزم کے ساتھ این او سی اور لائسنسوں کے چکر میں ہی پھنس گیا تو وہ کاروبار کیا کرے گا،اور اگر ان چکروں سے بچ کر آپ نکل ہی گئے تو ہمارے پیارے ملک میں قانون کی عملداری بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو نہ تو کسی شریف بزنس مین کو تحفظ اور ضمانت فراہم کرتا ہے کہ وہ ایمانداری اور محنت سے اپنے کاروبار کو چلا سکے۔

مثلًا اگر آپ اپنے کسی وینڈر یا کسٹمر کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتے ہیں اور وہ اسے توڑ دیتا ہے تو آپ کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ آپ قانون کا سہارا لے کر اس پر بروقت عمل کروا سکیں۔نہ ہی کوئی موثر اور جلد کام کرنے والا محتسب سسٹم ہے کیونکہ عدالتوں میں تو آپ کو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے پہلا چیلنج پار کر لیا تو نئے کاروباری نوجوان کو کاروبار شروع کرنے کے لیے پیسے کہاں سے ملیں گے؟اگر پاکستان میں آپ کو کسی بینک سے رجوع کرنا پڑے تو یہاں شرح سود اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آپ کی کاسٹ آف ڈونگ بزنس بہت بڑھ جاتی ہے اور پھر قرضہ دینے کا بینک کا معیار یہ ہے کہ جس کے پاس پہلے پیسے ہوں اسی کو قرضہ دو۔

یا کوئی چیز گروی رکھے بغیر کسی نوجوان کو بینک سے کاروبار کے لیے قرضہ نہیں ملتا۔بنک کو چھوڑ کر اگر آپ کسی سرمایہ کار کے پاس جائیں تو یا تو وہ انکار کر دیتا ہے اور اگر راضی بھی ہوجائے تو وہ یہ کہتا ہے کہ میں آپ کے بزنس کا پچاس سے ساٹھ فیصد حصہ لے لوں گا بغیر یہ سوچے کہ بزنس کے بانی جس کا آئیڈیا ہے اس کا اگر حصہ زیادہ ہو گا تو وہ زیادہ محنت سے زیادہ دل لگا کر کام کرے گا اور اگر کاروبار کامیاب ہو گیا تو سرمایہ کار کا چھوٹا حصہ بھی بڑا ہو جائے گا۔


چلیں ایک مرتبہ پھر اچھا گمان کرتے ہیں۔آپ کے پاس اچھا آئیڈیا بھی ہے، قوانین بھی آپ سمجھ گئے ہیں، اور پیسے بھی اکھٹے کر لیے ہیں تو پھر کیا آپ کو یہاں ہنر مند افراد ملیں گے کام کرنے کے لیے؟بدقسمتی سے ہمارے 90 فی صد لوگ حادثاتی طور پر اپنے شعبے میں آتے ہیں جو استاد شاگرد کے چکر میں مار کھا کر کاریگر بنتے ہیں جبکہ پڑھ کر یا باقائدہ ٹریننگ لے کر کسی ادارے سے بہت کم ہنر مند لوگ فیلڈ یا مارکیٹ میں موجود ہیں۔

دوسرے ملکوں میں بزنس ٹورز پر آنے جانے کے بعد اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں ایک اہم اور ضروری بات جو کہ میں سمجھتا ہوں ہمارے ملک پاکستان میں لوگ اتنی تیزی سے کام نہیں کرتے جتنے دوسرے ممالک میں کرتے ہیں۔ باہر تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے دفتر میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب تک کام ختم نہیں ہوتا تب تک گھر نہیں جاتے مگر یہاں ابھی بھی نائن ٹو فائیو ذہنیت چھائی ہوئی ہے اور لوگ کام پر ہوتے ہوئے بھی توجہ یا پورے فوکس سے اپنے فرائض انجام نہیں دیتے جسے میں ٹریننگ یا تربیت کی کمی سمجھتا ہوں۔


اوّل تو ہمارے تعلیمی اداروں یا تربیتی اداروں میں انٹرپنیورشپ یعنی ذاتی کاروبار کرنے کے کورسز پڑھائے ہی نہیں جاتے اگر پھر بھی کہیں کوئی کورس یا نصاب پڑھایا بھی جاتا ہے تو اسکو پڑھانے والے اساتذہ نے خود کبھی کوئی کمپنی نہیں چلائی ہوتی، انہیں کیا پتا کہ ایک کاروباری بندے کے مسائل کیا ہوتے ہیں۔
اس اہم موضوع پر لکھتے ہوئے میں حکومت وقت کو کچھ تجاویز دینا چاہوں گا جو پاکستان میں کاروباری کلچر کو نہ صرف ساز گار اور آسان بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی بلکہ ہمارے نوجوانوں کے لیے بھی مشعل راہ ثابت ہوں گی کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور نوکری کی تلاش کی بجائے اپنے کاروبار کے شروع پر توجہ مرکوز کریں۔


سب سے پہلے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ بزنس قوانین کوسمجھنے میں آسانی پیدا کرے۔کوئی ایسا پورٹل یا دفتر ہونا چاہیے جہاں کوئی بھی نوجوان جائے اور اس کو اپنے کام کے حوالے سے تمام تر سوالات کے قانونی جواب مل جائیں۔دوسرا، حکومت کی سکیموں کا ویژن بہتر ہونا چاہیے جیسے آپ مختلف پیکیج اورسکیموں میں ہزاروں لوگوں کو چھوٹے چھوٹے قرضے دے رہے ہیں۔

اس کی بجائے آپ کہیں کہ میرٹ کی بنیاد پر ہم ایک ہزار لوگوں کو جدت پسند آئیڈیا کی بنیاد پر بڑا قرضہ دیں گے تاکہ آپ کامیاب کمپنیاں پیدا کریں جن کی مالیت وقت کے ساتھ اربوں تک پہنچے،بڑی بزنس کارپوریشن بنیں اور لاکھوں لوگوں کو نوکری بھی مل سکے۔ ابھی تو لوگ قرضہ لیتے ہیں، کم شرحِ سود کی وجہ سے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، کوئی گاڑی لے لیتا ہے تو کوئی سیر سپاٹے پر خرچ کر دیتا ہے۔

ایک اور اہم حل ہماری یونیورسٹیوں اور تربیتی اداروں کا صنعت سے بہتر رشتہ قائم کیا جائے۔ہمارے پروفیسرز اور طلبہ فیکٹریوں اور مارکیٹوں میں بار بار آ ئیں جائیں اور کام کی نوعیت کو سمجھیں۔ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو تعلیم مت دیں، ہنر سکھائیں اور انہیں کہیں کہ چھٹیوں میں فیکٹریوں میں کام کریں تا کہ جب تک وہ فارغ التحصیل ہو کر مارکیٹ میں آئیں تو ان کے پاس کوئی ہنر ہو جو ان کے لیے بھی سود مند ہو اور انٹرپنیور کو بھی فائدہ پہنچے...!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :