حکومت اورقومی اداروں کے حوالے سے غیر شائستہ رویہ افسوسناک

پیر 4 نومبر 2019

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

یہاں ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ جو میں کر رہا ہوں وطنِ عزیز کی بہتری کے لئے کر رہا ہوں اور اس کے پیچھے حب الوطنی کا جذبہ کارفرما ہے۔ ہمارے سارے رہنماوٴں کے پیٹ میں درد صرف اور صرف عوام کا ہی اٹھتا ہے۔ وہ گرمی سردی کی پرواہ کئے بغیر اگر مارچ کرتے ہیں یا دھرنا دیتے ہیں تو صرف عوام کی خاطر ورنہ انہیں کیا کہ وہ کروڑوں کا خرچہ بھی کریں اور صعوبتیں بھی اٹھائیں۔

ہم اتنی جلد باز قوم ہیں کہ جنہیں خود ووٹ دے کرمنتخب کرتے ہیں لیکن کچھ ہی مہینوں کے بعد وہ نا اہل لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے عوام اس سب کو برداشت کر کے جب کسی بھی جماعت کو منتخب کرتے ہیں تو ناکام رہنے والی جماعتیں اور کچھ موقع پرست ان ہی معصوم عوام کو دوبارہ سڑکوں پر لا کر منتخب حکومت کو ناکام بنانے کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ ناکام سیاستدان بھلے سے کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن وطنِ عزیز میں ایک انارکی کی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں۔ ہمارے عوام بھی ایسے ہی ہیں کہ انہیں بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ ان مارچیوں، دھرنیوں کو اکسانے والوں کو صرف لاشیں چاہئیں وہ پھر بھی خوشی خوشی ان کی کال پر باہر نکل آتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان ہنگاموں نے ان کی زندگی میں کوئی آسانی نہیں لانی۔

جس طرح کے آج کل ملک کو حالات درپیش ہیں ان میں محض دھاندلی یا کسی اور بات کو جواز بنا کر پورے نظام کو تلپٹ کرنے کی کوشش سے مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں کمی واقع نہیں ہو گی۔ جو ان کو اس عمل پر اکسا رہے ہیں وہ کتنا عرصہ اس ملک پر برسرِ اقتدار رہے ہیں تو تب ان عوام کی زندگیوں میںآ سانی کیوں نہیں لا سکے۔ آج وہ اقتدار سے باہر ہیں تو انہیں یہ سب کچھ آسان دکھائی دے رہا ہے۔

یہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری کوئی ایک سال میں نہیں آئی یہ تو ماضی سے یونہی ہے۔ اگر آپ نے دودھ کی اتنی نہریں یہاں بہائی ہوتیں تو ایک سال میں سوال نہیں پیدا ہوتا کہ ان میں کچھ کمی ہو جاتی۔ دو تین فیصد ووٹ لینے والی پارٹی انقلاب اور انتخاب کی بات کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ پانچ سال کے لئے ہے جس طرح ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو حاصل ہوا۔

جس کی جہاں حکومت ہے ان سب پر یہ فارمولا پوری طرح لاگو ہوتا ہے۔ اگر ملک و قوم سے مخلص ہیں توموجودہ حکومت کی خامیوں کی نشاندہی کی جائے وہ بھی مخالفت برائے مخالفت نہیں بلکہ مخالفت برائے اصلاح کے پیشِ نظر اور ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے پر امن اور مہذب انداز اختیار کیا جائے۔ ساتھ ساتھ قوم کی اس انداز میں رہنمائی کی جائے کہ انہیں عالمی معیشت پر حالیہ دنوں ہونے والے اثرات کا بھی بخوبی اندازہ ہو سکے۔

دوسرا یہ کہ ہمارے انتخابی نظام میں بھی سقم موجود ہیں کہ جس میں ہر سطح پر دھاندلی کے امکانات پائے جاتے ہیں اس سلسلے میں ہونا یہ چاہئے تھا کہ ان خامیوں کو دور کرنے ک لئے آئینی طریقہ اختیار کیا جائے۔
پاکستان کے سیاسی کلچر میں ایک دوسرے کی مخالفت میں غیر پارلیمانی لہجے کے باعث جس تیزی سے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے وہ مہذب جمہوری قوتوں میں یقیناً فکر مندی کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔

جذباتی سیاست کا عنصر ایک فطری امر ہوتا ہے، لیکن اس میں زبان اور لہجے کو اتنا زیادہ تلخ یا نفرت کا پہلو نہیں ہونا چاہئے کہ شائستگی کا دامن پیچھے رہ جائے۔ جس طرح کا غیر شائستہ رویہ حکومت بالخصوص قومی اداروں کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کے اکابرین نے اختیار کیا ہوا ہے اس کی کئی حلقوں میں تنقید کی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام سے ووٹ لے کر آتی ہیں سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کا احترام کیا جانا چاہئے، اب حکومت ہٹاوٴ تحریک کا زمانہ نہیں ہے۔

اسی طرح قومی اداروں کے بارے میں بھی سازشوں کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی سیاست کو انفرادی یا جماعتی الزام تراشیوں سے نکال کر مسائل کی بنیاد پر سیاست کی روایت ڈالنی چاہئے، جہاں قومی، علاقائی اور لوگوں کے انفرادی مسائل کو فوقیت حاصل ہو۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر پارلیمانی نظام کو بچا کر یہاں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنی ہیں تو موجودہ سیٹ اپ کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دے کر سیاستدانوں نے قوم پر یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بالغ نظر ہو چکے ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر خود کو سدھار چکے ہیں ۔

اس کے لئے ایسے طرزِ عمل کی ضرورت ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے مقابلے میں دوسری ساری جماعتیں پی ٹی آئی کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔ درحقیقت ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے سبھی سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماوٴں و کارکنوں کی طرف سے ایسے ہی افہام وتفہیم والے طرزِ عمل کی ضرورت ہے۔ اس سے موجودہ سیٹ اپ کو استحکام اور پارلیمانی نظام کو مضبوطی ملے گی، جس سے موجودہ گنجلک مسائل سے نکلنے میں مدد ملے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :