سعودی حکومت کا محدود حج کا صائب فیصلہ

پیر 6 جولائی 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

کورونا وائرس جس نے دنیا کے اکثر و بیشتر حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں اس کی لپیٹ میں ہیں، جس کی ابھی کوئی دوا تیار نہیں ہو سکی ہے اور تاحال پوری قوت کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ اس سنگین صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی حکومت نے انسانی جانوں کی حفاظت کے پیشِ نظر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے باہر سے آنے والے حجاج پر اس سال پابندی لگا دی ہے تا کہ وائرس کا پھیلاوٴ حرمین شریفین میں نہ ہو اور نہ ہی حج کے بعد واپس ہونے والوں کے ذریعے دوسرے ملکوں میں پھیل سکے۔

شریعت اسلامی نے پانچ ضروریاتِ دین متعین کی ہیں جن میں جان، دین، عقل، نسل اور مال کی حفاظت شامل ہے، انسان کی جانی حفاظت بنیادی ضروریات میں سے ہے۔

(جاری ہے)

محدود حج کا فیصلہ اسلام کے پانچویں رکن کی محفوظ ادائیگی، عازمین کو کورونا سے بچانے، ان کی صحت و سلامتی کو یقینی بنانے اور انسانی جانوں کے تحفظ سے متعلق اسلامی شریعت کے مقاصد کے لئے کیا گیا ہے۔


مارچ میں جب یہ وباء پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر ہزاروں افراد کو لقمہٴ اجل بنا رہی تھی سعودی حکومت نے مقاماتِ مقدسہ بند کر کے دنیا بھر سے استدعا کی تھی کہ حج کی تیاریوں کو مٴوخر کر دیا جائے۔ اس سے قبل 27 فروری کو عمرے کی ادائیگی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ حج بیت اللہ کی منسوخی پہلی بار نہیں ہو گی، سعودی عرب میں شاہ عبدلعزیز فاوٴنڈیشن برائے ریسرچ اینڈ آر کائیوز کے مطابق حج بیت اللہ تقریباً 40 مرتبہ منسوخ کیا جا چکا ہے۔

ہر سال 20 لاکھ سے زیادہ افراد مکہ مکرمہ میں حج کا مقدس فریضہ ادا کرتے ہیں۔ قرونِ وسطیٰ کے حج کے بارے میں معلومات ناصر خسرو، ابنِ جبیر اور ابنِ بطوطہ سے ملتی۔ جنہوں نے خود حج کیا اور اور پھر سفرنامے لکھ کر اس سفر کو محفوظ بھی کیا۔ اسلامی تاریخ میں اس سے پہلے بھی بیماری، تنازعات، ڈاکہ زنی اور حملوں یا دیگر وجوہات کی بناء پر حج کو متعدد بار منسوخ کیا جا چکا ہے۔

حج کی سب سے پہلے منسوخی 10ویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ قرمیان مشرقی عرب میں مقیم ایک انتہا پسند فرقہ تھا جس نے ابو طاہر کے تحت ریاست قائم کی تھی۔ ان کی سوچ کمیونزم پر مبنی تھی۔ 930 عیسوی میں ابو طاہر نے حج کے دوران مکہ پر حملہ کر دیا۔ تاریخی احوال کے مطابق اس کاروائی میں30 ہزار عازمینِ حج کو لقمہٴ اجل بنا دیا تھا اور ان کی لاشوں کو مقدس زمزم کے کنویں میں پھینک دیا۔

اس کے بعد انہوں نے کعبہ سے حجرِ اسود کو چرا لیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ اس واقعہ کے بعد کئی سال تک حج کی ادائیگی نہیں ہو سکی تھی۔ اس سے قبل 885 عیسوی میں اسماعیل بن یوسف نے خلافتِ عباسی کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی مکہ کے قریب عرفات کے پہاڑ میں جمع ہونے والے زائرین کا قتلِ عام کیا تھا اور حج کو منسوخ کرنے پر مجبور کیا۔ اسی طرح زائد اخرجات کی بناء پر 1000 عیسوی میں بھی حج کو منسوخ کیا گیا۔

اس کے علاوہ بھی کئی بار مختلف وجوہات کی بنیاد پر محدود پیمانے پر حج کی ادائیگی کی اجازت دی گئی۔
فریضہ و مناسکِ حج کی بڑی اہمیت و فضیلت ہے۔ آج کے مادی دور میں بھی پوری دنیا سے اہلِ توحید لاکھوں کی تعداد میں مکہ مکرمہ کا قصد کرتے ہیں اور فریضہ حج ادا کر کے اپنے رب کے نزدیک سرخرو ہوتے ہیں۔ سعودی مملکت جسے ہر سال لاکھوں عازمینِ حج اور عمرہ زائرین کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہے، اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے احتیاطی تدابیر کی بناء پر فریضہ و مناسکِ حج کو محدود کر دیا گیا ہے۔

اس فیصلے کا مقصد یقیناً فریضہ حج کو پر امن اور صحت مند طریقے سے قائم کرنا ہے جس میں انسانی جان کی حفاظت کے حوالے سے شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے موجودہ وباء کے خطرات سے انسان کی حفاظت و سلامتی یقینی ہو۔ سعودی عرب نے حج کے حوالے سے جو فیصلہ لیا ہے موجودہ عالمی صورتحال میں اس سے بہتر کوئی دوسرا فیصلہ ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ ہنوذ وباء پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

اور اس طرح یہ فیصلہ زائرین حرمین شریفین کی سلامتی اور حفاظت کے حوالے سے مملکت سعودی عرب کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ بلاشبہ حکومتِ سعودی عرب کا یہ فیصلہ شرعی و طبی تقاضوں کے عین مطابق ہے اور انسانی جانوں کے تحفظ اور ضروری سماجی فاصلے کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔سعودی عرب نے اس عالمی وبائی صورتحال میں درست راہ اختیار کی ہے جو عقل و صحت کی عالمی تنظیموں اور وبائی امراض کے مراکز کی سفارشات کے عین مطابق ہے، جو اس وباء کی روک تھام کے لئے ضروری قرار دی گئی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر گزشتہ سالوں کی طرح کورونا وائرس کی وباء کے دور میں حج کو جاری رکھا جاتا اور تعداد اور آمد و رفت پر پابندی عائد نہ کی جاتی تو ظاہر پوری دنیا سے زائرین کے سعودی عرب میں اکٹھا ہونے پر سماجی فاصلہ قائم رکھنا ناممکن تھا ، اس طرح کورونا کا پھیلاوٴ یقینی ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :