قرآن ہمیں کیسا دیکھنا چاہتا ہے

پیر 11 جنوری 2021

Rao Asif Habib

راؤ آصف حبیب

ہم نے اپنے بچوں اور اپنی آئندہ نسلوں کو یہ سمجھانا ہے کہ محض کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جانا کافی نہیں بلکہ اس حوالے سے جو ذمہ داریاں ہیں اُنہیں پورا کرنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جن عبادات کو فرائض کی شکل میں ہماری ذات کا اور ہماری زندگی کا حصہ بنایا ہے ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے اگر ایسا کیا تو اس کی سزا ملے گی۔ اس لیے پانچ وقت کی نماز ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، استطاعت ہو تو حج کرنا زکوٰةادا کرنا یہ وہ بنیادی عبادات ہیں جنہیں لازماً بجالانا ہے صد افسوس کہ، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ان عبادات کو اپنی زندگی سے نکال چکی ہے جب کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے وہ فرائض ہیں جن کے بغیر گزارا ہی نہیں ہے۔

دوسری اہم بات جو ہم سب جانتے ہیں لیکن عمل بہت کم کرتے ہیں حالانکہ دین اس کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتاہے وہ ہے ہمارے معاملات۔

(جاری ہے)

جب تک ہم اپنے معاملات کو درست نہیں کریں گے ہمارا دینِ اسلام پر نہ تو عمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔معاملات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ فرد کا فرد کے ساتھ ،فرد کا ادارہ کے ساتھ، ادارے کا ادارے کے ساتھ، قوم کا قوم کے ساتھ، فرد کا ملک اور ملت کے ساتھ الغرض ہر جگہ اور ہر کسی کے ساتھ معاملہ کر تے ہوئے جو اسلامی اصول ہیں وہ سب زندگی میں ہمیں اختیار کرنے ہیں۔

یہ تمام اُصول قرآن و حدیث کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔عبادت میں اخلاق کو کیسے شامل کرنا ہے ایمان میں اخلاق کو کیسے اختیار کرنا ہے روز مرہ کے معاملات میں اخلاق کو کیسے شامل کرنا ہے؟اسلام نے یہ سب کچھ بڑے واضح طور پر ہمیں بتا دیا ہے۔ اسلام میں اچھے اخلاق کو اپنانے پر بہت زور دیا گیا ہے اور اخلاق کا آسان ترین ترجمہ ہے آداب یعنی ہر کام کے جو آداب ہیں اُنہیں ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اُسے سر انجام دیا جائے۔


 قرآن انسان کو کیسا دیکھنا چاہتا ہے یقینا توحید ورسالت اور قیامت،یہ تو ہمارے عقائد کا حصہ ہے۔ نماز ،حج، روزہ اور زکوٰة وغیرہ یہ سب اسی ایمان کے لازمی تقاضے ہیں جنہیں ادا کرنا ہے۔ایک جگہ پرقرآن یہودیوں اور عیسائیوں کی غلط روش کی مذمت کرتے ہوئے فرما رہا ہے" یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کتاب کے کچھ حصے کو مان لیا یعنی کچھ حصے پر ایمان لائے کچھ پر ایمان نہیں لائے"غور کریں کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کتاب جو ہمیں ملی ہے ہم بھی اس کے کچھ حصے پر ایمان لا رہے ہوں اور کچھ حصے پر ایمان نہیں لا رہے ہوں۔

اللہ فرماتا ہے حق اور باطل کو گڈمڈ مت کرو کہیں ہم ایسا تو نہیں کر رہے ؟ قرآن جھوٹ بولنے والے پر لعنت بھیج رہا ہے ۔کہیں ہم تو ایسا نہیں کر رہے؟ بقول قرآن” شْکر کرتے رہو گے تو میں نعمت بڑھاتا رہوں گا ،کفران نعمت کرو گے تو نعمت واپس لے لوں گا، میرا عذاب بہت شدید ہے“ کہیں ہم ناشْکری تو نہیں کر رہے۔
ناشُکری کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ ہم اپنے قول یا اپنی گفتگو میں اللہ کا یا اُس کی نعمتوں کا انکار کریں۔

اللہ کا شکر ہے کہ کم ازکم قول اور اقرار کے اعتبار سے گفتگو کے اعتبار سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو یہ کہے کہ میں اللہ کو نہیں مانتا ،قرآن کو نہیں مانتا یا رسول کو نہیں مانتا۔لہٰذا ان معنو ں میں تو ہم مومن بھی ہیں اور شُکر گزار بھی ،ناشُکری کی دوسری صورت کا تعلق ہمارے عمل سے ہے یعنی اپنے عمل اور روز مرہ کی سرگرمیوں میں ایسا طرزِ عمل اپنانا جس سے ظاہر ہو رہا ہو کہ ہم حقیقتاً مومن اور شُکر گزار بندے نہیں ہیں اور جب عمل کی دنیا میں جھانکتے ہیں تو پھر اپنی حالت پر افسوس ہوتا ہے. ایک آسان سا حل یہ ہے کہ ہم مختلف انجام یا نتائج کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا کام اچھا ہے یا اچھا نہیں ہے۔

اگر ہماری مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور تمام تر نعمتوں کے باوجود مصیبتیں بڑھ رہی ہیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے کوئی نا کوئی ناشْکری ضرور کی ہے جس کا ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہم بارہا اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور کہتے رہتے ہیں کہ ہماری زمین سونا اگلنے والی ہے اور دریا ہیں ،پہاڑ ہیں، سمندر ہیں اور سارے موسم ہیں وغیرہ وغیرہ یہ سب تذکرے ہم کرتے رہتے ہیں۔

ان تمام نعمتوں کے باوجود اگر تعلیمی میدان میں اخلاقی میدان میں، ترقی کے میدان میں اور انسانوں کے بھائی چارے کے میدان میں ہم مسلسل مصیبتوں کا شکار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عمل کی دنیا میں اس قول پر ثابت قدم نہیں ہو رہے۔ ہمارے عمل کی دنیا میں کوئی نہ کوئی کوتاہی اور ناشْکری کی ایسی صورت بن رہی ہے جس کا نتیجہ ہمیں یہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔

تو پھرحل کیا ہے؟ آسان سی بات ہے کہ اپنے آپ کو بدلاجائے، اپنا رویہ بدلاجائے۔
ہم اکثر یہ ذکر کرتے رہتے ہیں کہ حکومت اور اس کے نظام میں یہ خرابی ہے یا ہمارے اندر یہ خرابی ہے۔ دیکھیں یہ خرابی کا تذکرہ محض اس لیے نہیں ہو رہا کہ ہم اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ خرابی کا تذکرہ درحقیقت اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ یہ خرابی موجود ہے تو پھر ہمیں یہ خرابی دور کرنا چاہیے اس کے سبب کو دور کرنا چاہیے۔

ہم سب اس کا سبب بن رہے ہیں جب تک ہم اس خرابی کو دور نہیں کریں گے تو اللہ تعالی آسمان سے فرشتے نازل کرکے ہمارے حالات کو تبدیل نہیں کرے گا۔ یہ اللہ تعالی کی سنت نہیں ہے وہ صرف راستہ دکھاتا ہے طریقہ بتاتا ہے اور وسائل کے لیے راستہ کھولتا ہے۔ ہم دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں کہ اکثر لوگ ان خرابیوں کا تذکرہ بہت ہی کرب اور دْکھ کے انداز میں کرتے رہتے ہیں۔

یہ خرابی ہم جب تک دور نہیں کریں گے اس وقت تک ہمارے حالات نہیں بدلیں گے اس لیے نا شْکری کے راستے کو چھوڑ کر شْکر گزاری کے راستے پر آنے کے لئے پہلا قدم یہ اٹھانا چاہیے کہ ہم اْن نعمتوں کے بارے میں غور کریں جو اللہ تعالی نے مجھے اور آپ کو دے رکھی ہیں اور دوسرا قدم یہ اُٹھانا چاہیے کہ جن نعمتوں کے بارے میں احساس ہو جائے کہ یہ اللہ تعالی کی نعمت ہے توپھر اس نعمت کا صحیح استعمال کیا ہے؟ اس کے بارے میں غور کرنا شروع کر دیں۔

قرآن مجید سے پوچھ لیں ،اللہ کے رسول کی سیرت سے پوچھ لیں، دنیا والوں کے تجربات سے سیکھ لیں کیونکہ یہ تینوں چیزیں خود اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ نے سیکھائی ہیں۔ انسانوں کے تجربات سے سیکھنا قرآن اور اللہ کے رسولﷺ کی تعلیمات کا ایک حصہ ہیں اور اسی وجہ سے قرآن کی بہت ساری آیات ہماری رہنمائی کرتی ہیں ۔ جب ہم اللہ اور اْسکے رسولﷺسے پوچھیں گے تو اگلا قدم خود بخود سامنے آجائے گا کہ جب جان چکے تو اب عمل کرنا چاہیے اُن سب باتوں پرجو ہم سب اکثر کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے جب تک سانس ہے اور جب تک حالات درست نہیں ہوتے ہمیں مسلسل جدو جہد کرنا ہے۔

اخلاقی باتیں تو بعد کی بات ہیں، مادی اعتبار سے بھی اگر دیکھنا شروع کریں تو کتنے طویل عرصے سے مسلسل ہم یہ سْن رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں پاکستان میں پانی کی شدید قلت ہے۔ بارش اللہ تعالی کی طرف سے مسلسل رحمت کی صورت میں آ رہی ہے ہر سال سیلاب بھی آتا ہے اور پھر پانی کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ہر موسم میں بلکہ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ توانائی کی شدید قلت ہے یہ باتیں ان پڑھ اور ہر پڑھے لکھے آدمی کو بھی دکھائی دیتی ہیں۔

اس کا علاج کون کرے گا؟ اس کا علاج تو ہمیں ہی کرنا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے دریا ،سمندر، چشمے اور زمین سب کچھ موجود ہے اگر ہم پھر بھی پانی کے ذخیروں کو محفوظ نہیں کر رہے پانی کا استعمال صحیح درست نہیں کر رہے تو پھر اسے کون درست کرے گا؟
 نا شْکری کیا ہے؟ نا شْکری یہ نہیں ہے کہ ہم الحمدللہ نہیں کہتے یا سبحان اللہ نہیں کہتے ناشْکری کا سب سے بڑا سبب بنیاد ی طور پر یہ ہے کہ اللہ کی نعمت کو ضائع کیا جائے اللہ تعالی کی نعمت کی ناقدری کی جائے اور اللہ تعالی کو فراموش کیا جائے ہم یہ نہیں سوچیں گے کہ اس بارش کے پانی کو زیادہ سے زیادہ مفید کیسے بنایا جائے ؟یہاں سے شروع کریں اور پھر بات عقل و شعور تک پہنچتی ہے نوجوانوں تک پہنچتی ہے، بچوں کی تربیت تک پہنچتی ہے، والدین کی عزت کو پہنچتی ہے اور ہماری زندگی کے بے شمار معاملات سب کے سب اس کے اندر شامل ہو جاتے ہیں۔

پھر نہ معاملات سے ہم باہر نکل سکیں گے نہ اخلاق سے باہر نکل سکیں گے اور نہ عبادت سے باہر نکل سکیں گے۔لہٰذا نعمتوں کی شْکر گزاری کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم نعمتوں کی پہچان کریں دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ جب پہچان ہو جائے تو پھر اس نعمت کی قدر دانی کرتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کرنا شروع کر دیں۔ میں اس میں ایک اور بات شامل کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بچوں کی نعمت عطا کر رکھی ہے ٹھیک ہے حکومت کا نظام بگڑا ہوا ہے ٹھیک ہے تعلیمی نظام بگڑا ہوا ہے تو کیا اس کی بنیاد پر میں اپنے بچوں کو تباہ کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دوں؟ کیا میں اس بنیاد پر کوئی ایسا جواز تلاش کر سکتا ہوں کیونکہ یہ سارا نظام ہی بگڑا ہوا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں نہیں اگر وہ بچے میرے ہیں تو میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں اپنے طور پر پوری کوشش کروں کہ میں ان کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے ،ان کے اخلاق، ان کی تعلیم، ان کے برتاوٴ اوران کی صلاحیت کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی جائے اور اس طرح بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کروں جیسا کہ قرآن مجید مجھ سے تقاضا کرتا ہے۔


 انبیاء  کی تعلیمات، قرآن مجید اور سابقہ تمام کتابوں کا خلاصہ یہی ہے کہ انسان کو اللہ رب العزت نے جہاں اِن تمام خوبیوں سے نوازا ہے وہیں پر اْس انسان کے اندر ایک جانور بھی موجود ہے یعنی انسان محض ایک جاندار نہیں ہے بلکہ اس کے اندر ایک جانور بھی موجود ہے دیگر جو جاندار ہیں وہ صرف جاندار ہیں جبکہ انسان دو چیزوں کا مرکب ہے اس کے اندر اعلیٰ اخلاق اور اعلی صفات بھی پائی جاتی ہیں اور اس کے برعکس انتہائی بھیانک قسم کی اور خوفناک قسم کی بْری عادات بھی پائی جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے خود اس کا تذکرہ کیا ہے کہ جو لوگ غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں انسان کے اندر کے حیوان کو جب تک انسان نہ بنایا جائے اس وقت تک ہماری زندگی کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور شیطان کی کوشش کیا ہے کہ شیطان مختلف حیلے بہانوں سے اس جانور کو مسلسل باہر نکالتا رہتا ہے اور مختلف شکلوں میں لوگوں کے سامنے آتا رہتا ہے۔

ہم آئے دن یہ خبریں سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں فلاں نے فلاں کو قتل کر دیا،فلاں کی بیٹیاں فلاں راستے پر چل پڑیں یہ ہو گیا وہ ہو گیا۔ یقیناً اس میں دوسرے اسباب بھی موجود ہیں۔ لیکنً اس گھر کے اندر کی تربیت وہ بھی اس کے اندر شامل ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں یہ سارے غلط کام کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہو رہا ہوتا اس اعتبار سے اس کے اندر کے حیوان کو انسان بنانے کی کوشش ،یہی ہمیں قرآن مجید سکھاتا ہے۔

قرآن ہمیں سیکھلاتا ہے، تمہیں عقل اور شعور اس لیے عطا کیا گیا ہے کہ تم اپنی عادتوں کو اور اپنے معاملات کو درست کرو اور اپنے ذہن میں آنے والے خیالات اور مختلف ارادیوں اور نیتوں کو درست کرتے رہو۔ سورہ الشمس کی ایک آیت میں واضح طور پر فرما دیا گیا ہے جس کا مفہوم ہے"قسم ہے اس نفس کی یعنی انسان کی جان کی اور جس طریقے سے اسے بنایا گیا ہے سنوارا گیا ہے اور اس کی تکمیل کی گئی ہے" جب بھی کسی چیز کی خرابی کو دور کیا جائے کانٹ چھانٹ کر کے اسے درست کیا جائے تو اس کو تہذیب کہا جاتا ہے۔

انسان کے دل و دماغ میں مختلف قسم کے خیالات پنپتے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نیک سے نیک آدمی اور اچھی سے اچھی فطرت رکھنے والے انسان کے دل میں بھی غلط سے غلط اور بْرے سے بْرا خیال آتا ہے لیکن غلط خیال آنے کے باوجود وہ نیک آدمی نیک کیوں رہتا ہے؟ اس وجہ سے رہتا ہے کہ وہ اپنے بْرے خیالات کی تہذیب کر دیتا ہے اُن کی کانٹ چھانٹ کر کے اُنہیں پروان نہیں چڑھنے دیتا اور اُنہیں دبا دیتا ہے۔

اس کے مقابلے میں جو بْرا آدمی ہے وہ کیا کرتا ہے؟ وہ اپنی بْری نیت اور بْرے ارادے کو تکمیل تک پہنچا دیتا ہے۔جبکہ شیطان اور اس کے ساتھی جو انسانوں کی شکل میں ہیں وہ آپ کو ،آپ کے ان ارادوں کو روکتے نہیں ہیں وہ نفرت کو بڑھاتے ہیں، قتل و غارت گری کو فروغ دیتے ہیں بدکاری کے راستے کو آگے بڑھاتے ہیں چوری چکاری کو اپنے لئے جواز بناتے ہیں کوئی نہ کوئی سبب بنا کرغلط کام کوجائز کر دیتے ہیں یہی وہ خرابی ہے جس کی وجہ سے انسان کے اندر کا حیوان مزید بڑا حیوان بن جاتا ہے اورلوگ اپنے اس حیوان کی پرورش کرتے رہتے ہیں۔

اللہ تعالی ہمیں صرف یہ نہیں کہتا کہ تم پانچ وقت کی نماز پڑھو بلکہ اللہ اور اس کے رسول ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ تم نماز کو اپنا کردار بنا لو اور اپنی ذات کا حصہ بنا لو۔ جب ہم نماز ادا کرکے گھر میں آتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے ہیں، اپنے ماں باپ کی عزت اور تکریم نہیں کر رہے ، ان کی خدمت نہیں کر رہے، وہاں سے دوکان یا دفتر میں جاتے ہیں اور وہاں معاملات میں بدنیتی اختیار کرتے ہیں ایمان کی روش اختیار نہیں کر رہے ہوتے توہم نے وہ ایک نماز ادا کرکے گویا اُسے وہیں پر ختم کر دیابالکل اس طرح کہ جیسے وضو کر کے ٹوٹ گیا یا کھانا کھا کے اسے اُگل دیا گیا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری بات کا اثر ہمارے عمل میں، ہمارے کردار میں اورہمارے معاشرے میں نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ اس کا ایک بڑا سبب مسلمانوں کا نظریاتی بگاڑ ہے۔ اللہ تعالی ہمیں دنیا اور آخرت کے معاملات کوسمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :