کرونا وائرس اور تاریخ کا سبق!

پیر 20 اپریل 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

کرہ ارض پر آباد انسان جدید ترین تکنیکی‘طبی اور سائنسی ترقی پر اس قدر مطئمن تھا کہ اسے شائد اندازہ نہیں تھا کہ ایک حقیر سا وائرس اسے اس قدر لاچار‘بے بس اور محتاج کر کے گھروں میں مقفل کر دے گاکرونا وائرس نے دنیا کے طے شدہ منصوبوں کی ہوا نکال کر انسان کو اس حد تک بے بس کر دیا کہ انسان اپنی زندگی اور معشعیت کو بچانے کی جنگ سے نبردآزماہے۔

یہ ایسا مخفی وائرس ہے جس کے پاس نہ طاقتور فوج‘نہ میزائل ٹیکنالوجی‘ اورنہ ہی کوئی کیمکل ہتھیار ہے لیکن اس کی جارحیت اس قدر شدید ہے کہ پوری دنیا میں لاکھوں افراد اس کا رزق بن چکے ہیں۔کرونا وائرس کی شکل میں موت انسان کو سونگھتی پھر رہی ہے انسان اپنی جان مٹھی میں لئے خاموش اور ساکت ہو کر رہ گیااکیسویں صدی کی ترقی سے لیس انسان اذیت اور صدمے سے دوچار کسی خاموش ہولناک اشارہ محشر کو محسوس کرتے ہوئے آسمان سے کسی معجزے کا منتظر دکھائی دیتا ہے۔

(جاری ہے)

قدرت کے سامنے انسان کی تمام تر تحقیقات اور ایجادات بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں بالخصوص ان ممالک کے لئے قدرت کی یہ وارننگ ہے جو اس روئے زمین پر زمینی خدائی کے دعویدار بن کر ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے تھے انسانی حقوق کی پامالی ان کا وطیرہ بن چکا تھا تاریخ کا یہ ہولناک سبق ہے کہ جب بھی انسان ایکدوسرے کے لئے مضر بن جاتا ہے تو پھر قدرت کی جانب سے پورے انسانی معاشرے کو ایسی وبائیں قہر بن کر اپنی لپیٹ میں لے کر معاشرے میں زہر گھولنے والوں کو عبرت کا رزق بنانے کے لئے آتیں ہیں۔

ہزاروں سال سے انسان اس زمین پر آباد ہے انسان نے نیشمار تغیرات اور تبدیلیوں کا سامنا کیا مختلف اقوام کا جنم ہوا اور وہ مٹ گئیں خود کو خدائی دعویدار سمجھنے والوں کا بدترین انجام بھی تاریخ کا حصہ ہے۔تاریخ کے اوراق میں دستیاب متعدد نامور حکمرانوں‘طاقتور بادشاہوں کا دبدبہ اور ان کاانجام بھی ملتا ہے شداد نے خدائی دعویٰ کیا لیکن جب قدرت کی پکڑ میں آیا تو ایک مچھر نے اسے بدترین انجام سے دوچار کر دیافرعون نے طاقت‘عقل اور دولت کے نشہ میں خود کو خالق کائنات سمجھتے ہوئے رعایا پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اس کے عبرتناک انجام سے بھی دنیا بخوبی واقف ہے کہ جب وہ اپنی رعایا سمیت دریا نیل میں غرق ہو گیا اس کی لاش آج بھی دنیا کے سفاک اور ظالم حکمرانوں کے لئے درس عبرت ہے جسے زمیں اور آسمان تک نے قبول نہ کیا۔

جب روئے زمین پر ظلم حدوں کو چھونے لگے تو پھر اللہ تعالیٰ ظالم کو رسی ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ کہ تمہاری کوئی اوقات نہیں تاریخ عالم میں ایسے حکمرانوں کا تذکرہ عبرت کی تحریر سے رقم ہے کہ جنہوں نے اللہ کی متعین کردہ حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سر کشی کی وہ عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔بیسویں صدی میں برق رفتار ترقی نے ترقی یافتہ حکمرانوں کو اس زعم میں مبتلا کر دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو زمینی سپر پاور سمجھنے لگے وہ طاقت اور دھونس سے اپنی منشا کے مطابق دنیا کے نظام کو چلانے لگے
 اور یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہی اس دنیا میں طاقت کا منبع ہیں۔

جب ان ظالم حکمرانوں کی سوچ اس نہج پر آکر منتج ہو گئی کہ سائنس سے بڑھ کر کوئی دماغ نہیں‘ایٹم بم سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں‘ڈالر سے بڑھ کر کسی کی کوئی حیثیت نہیں‘میڈیکل تمام امراض کا حل ‘مضبوط ترین معشیت‘طاقتور فوج کے ہوتے ہوئے کسی کی مجال نہیں جو ہمارے سامنے اپنی دم ہلا سکے یہ وہ طاقت کے د م خم کا نشہ تھا جس کی طاقت کے بل بوتے پر وہ خدائی قانون کے بر خلاف بغاوت پر اتر آیااور پھر خدا کا قہر اس ظالمانہ نظام کے خلاف کرونا وائرس کی شکل میں ظاہر ہوا اور اس حقیر سے وائرس نے ان ظالم حکمرانوں کی گردنیں گھٹنوں کے بل ٹیک دیں۔

آج دیکھ لیں قدرت کے اس انتقام ‘عذاب نے ایسے غائبانہ انداز میں پورے انسانی معاشرے کے گرد اپنا شکنجہ کسا کہ سائنس یہ تک معلوم کرنے سے قاصر ہے کہ یہ ہے کیا‘دنیا کا میڈیکل نظام اپنے تمام تر تجربات کے ساتھ اس وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا‘دفاعی سازو سامان اور جنگی ہتھیار شکست خوردہ ہو چکے‘آسمانوں اور سمندروں کا سینہ چیرنے والے جہاز خاموش ‘ بندر گاہیں اور دنیا کے بڑے بڑے ائرپورٹ ویران ہو گئے‘دنیا کے ممالک میں قیامت خیز سناٹا طاری ہو گیا‘پوری دنیا کا کاروبار زندگی منجمد ہو گیا آج زمینی سپر پاور امریکہ کی باون ریاستوں میں ہوکا عالم ہے یہ سب کیا ‘یہ ان حکمرانوں کے لئے وارننگ اور تنبیہ ہے جو نمرود‘فرعون‘شداد‘ہامان اور قارون کے انجام درس عبرت کو بھلا چکے تھے جو خود کو دنیا کی سپر پاور سمجھ بیٹھے تھے۔

اس زمین پر آباد انسان پر جتنے بھی حکمران ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں اصل حکمرانی پروردگار عالم کی ہے حضرت داود علیہ السلام نبی بھی تھے اور سلطنت کے حکمران بھی اللہ تعالیٰ نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے خلیفہ کا لفظ استعمال کیا یہ لفظ اپنی پوری تشریح میں یہ ثابت کرتا ہے کہ حاکم وقت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے احکامات کی اطاعت اور اس کے تخلیق کردہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نظام مملکت چلانا ہوتا ہے۔

کرونا وائرس دنیا کے ان ظالم حکمراانوں کے لئے عبرت کا سبق ہے جنہوں نے اپنے آپکو طاقتور سمجھ کر عدل و انصاف کا سبق فراموش کر دیا تھا جو خالق ارض و سماوات کے قانونی نظام کو پس پشت ڈال کر نافرامانی اور بغاوت پر اتر آئے تھے جو اقتدار کے نشہ میں مذہب‘ذات اور نسل کی بنیاد پر تفریق کرنے لگے تھے جو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کمزور ممالک اور اقلیتوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے تھے جو اس غرور و تکبر کے نشہ میں مبتلا ہو چکے تھے کہ ان کے ناپاک عزائم کی تکمیل میں روئے زمین پر کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا ۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ایسے سرکش‘ظالم اور جابر حکمرانوں کا انجام بدتر ہوا ہے طاقت کے نشہ میں چور قومیں اس طرح تباہ و برباد ہوئیں کہ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔آج کرونا وائرس کے سامنے بے بس دنیا کے غرور و تکبر میں مبتلا حکمران اپنی بے بسی و لاچاری پر آنسو بہا رہے ہیں اس وائرس کے سامنے ان کے تمام اسباب بے کار ہو چکے ہیں ۔یہ وائرس آج پوری طاقت سے ڈنکا بجا رہا ہے کہ اس پوری کائنات پر حکمرانی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے بڑے بڑے حکمران آئے بڑی بڑی شان و شوکت والی اس زمین پر قومیں آباد ہوئیں سب فنا ہو گئے دنیاسے قبل اور تا ابد قائم حکمرانی صرف اس خالق کائنات کی ہے۔

وقت کا تقاضا یہ ہے کہ پوری انسانیت اپنا محاسبہ کرے اپنے اعمال اور طرز عمل کا جائزہ لے ارباب اقتدار اور عالم کے حکمرانوں کو اب یہ بات ازبر کر لینی چاہیے کہ اس قانون خداوندی سے بغاوت نہ کرے کیونکہ کل بھی اور آج بھی پوری کائنات کا نظام اس کے تابع ہے کسی بھی خاکی بشر کی یہ مجال نہیں کہ اس کے قانون قدرت سے مفر اختیار کر سکے توبہ کا در آج بھی کھلا ہے گناہوں سے تائب ہو کر اس سے لو لگا لو جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ اس امت محمدیﷺ سے پیار کرتا ہے قدرت ایک بار پھر تاریخ کو دہرا رہی ہے اللہ تعالیٰ نے سمجھنے والوں کے لئے عبرت اور توبہ کا در کھول رکھا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :