بلدیاتی نظام کے تسلسل کو قائم رکھنے کی ضرورت!

اتوار 23 جنوری 2022

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

 تاریخ بتاتی ہے کہ آمریت کے ادوار میں بنیادی جمہوریت کو قائم کرنے کی عملی کوششیں کی گئی اور خالصتا جمہوری ادوار میں اس سے مکمل پرہیز کیا گیا اور آج تک ہماری جمہوری اور منتخب حکومتوں کی ترجیحات میں مقامی حکومتیں شائد اسی لئے آخری نمبر پر ہیں۔1958ء میں جب جنرل ایوب نے پہلا مارشل لاء نافذ کیا اور بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا اور 1959ء میں بنیادی جمہوریت کا آرڈیننس نافذ کیا اور پھر 1961ء میں بنیادی جمہوریت کے مقاصد فرائض اور حدود کی وضاحت کی گئی 1962ء کے آئین میں اس نظام کو انتخابی کالج کا درجہ دیا گیا 1963ء میں دیہی ترقیاتی پروگرام شروع کئے گئے تاکہ بلدیاتی نظام کے ذریعے بنیادی سہولیات کی فراہمی دیہات میں بھی یقینی بنائی جا سکے ۔

بہر حال 1999ء میں جنرل مشرف نے جب نوازشریف کی منتخب حکومت کو ختم کر کے اقتدار سنبھالا تو 2000ء میں مقامی حکومتی آرڈیننس جاری کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مقامی حکومت کے لئے ضلعی نظام متعارف کروایا اور اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچایا۔

(جاری ہے)

اس نظام کے تحت افسر شاہی کو منتخب نمائندوں کے تابع کر دیا گیا اس بار مقامی حکومتوں میں ڈویلپر نمائندے منتخب ہو کر آئے اور اس دور میں بے شمار ترقیاتی کام ہوئے اور بالخصوص تعلیم‘صحت اور کھیل کے میدانوں پر توجہ دی گئی۔

بلدیاتی نظام ہی عام آدمی کے مسائل کا واحد حل ہے چونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو قومی‘علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے وہ براہ راست عوام کے مسائل کا ادراک کرنے سے قاصر ہوتی ہیں وقت گزرنے کے ساتھ اگر ان پر مناسب توجہ اور فنڈز نہ دئیے جائیں تو یہ مسائل جلد قومی مسائل میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو مختلف سانحات کو جنم دیتے ہیں اور یہ سانحات کئی منتخب حکومتوں کو کھا جاتے ہیں۔

اس لئے ضروری ہے بلدیاتی انتخابات کے تسلسل کو قائم رکھا جائے اور اس کی راہیں مسدود نہ کی جائیں تاکہ بنیادی جمہوریت کی نرسری کو ملک میں پھلنے پھولنے کا موقع مل سکے اور عام آدمی کے بنیادی مسائل اس کی دہلیز پر حل ہوسکیں۔وزیر اعظم عمران خان نے بدھ کے روز پنجاب کے پانچ بڑے شہروں کی ماسٹر پلاننگ سے متعلق اجلاس کے موقع پر ممکنہ مےئرز کی تفصیلات طلب کر لی ہیں اور صوبہ پنجاب میں 15مئی کو بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان بھی کیا ہے۔

مرحلہ وار ہونے والے ان انتخابات کا سلسلہ جون تک جاری رہے گابظاہر تو اب بلدیاتی انتخابات کروانے میں کوئی رکاوٹ نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن دو ہفتے قبل پنجاب حکومت سے کہہ چکا ہے کہ اس انتخابی سلسلے میں کسی ٹیکنالوجی بشمول ای وی ایم کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالہ سے یہ تاثر عام ہے کہ یہ انتخابات ذاتی تعلقات‘برادری ازم اور مقامی دھڑوں کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں اس لئے قومی سطح کی سیاست پر اس کے اثرات کم ہی مرتب ہوتے ہیں۔

ماضی میں جتنے بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے وہ غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے لیکن اس بار عدالتی حکمنامہ پر پہلی بار بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہو رہے ہیں اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ان انتخابات کے اثرا ت مستقبل میں قومی و صوبائی سطح پر ہونے والے عام انتخابات پر ضرور مرتب ہوں گے۔خیبر پختونخوا میں ہونے والے سترہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے حکمران جماعت(تحریک انصاف) کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے لیکن ابھی دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے مرحلے کے ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی ہوا کس سمت میں سفر کرے گی صورتحال اس وقت زیادہ واضح ہو جائے گی۔

خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حکومت مخالف امیدواروں کی واضح برتری کی ایک بڑی وجہ کے پی میں پارٹی اختلافات ہیں مہنگائی‘بے روزگاری اور حکومت کی تین سالہ کارکردگی کو بھی سیاسی مبصرین خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت کی شکست سے تعبیر کر رہے ہیں۔کے پی میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے صرف تحریک انصاف کو ہی پریشان نہیں کیا ان انتخابات میں جمعیت اور اے این پی نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے جب کہ مسلم لیگ ن اور پی پی پی جیسی قومی سطح کی بڑی جماعتیں بھی چاروں شانے چت ہوئی ہیں جو ان سیاسی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی شکست کی بڑی وجہ جو میں سمجھتا ہوں ان جماعتوں نے عام آدمی کے مسائل کو حل کروانے کے لئے صیح معنوں میں عملی جدوجہد سے حکومت کو ٹف ٹائم نہیں دیااور عام آدمی کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑی نہیں ہو سکیں ۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کی کامیابی کی وجہ یہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے حکمران جماعت کے دور میں ریلیوں‘مارچ اور احتجاجی مظاہروں میں جو مستقل مزاجی دکھائی اور جس طرح اپنے کارکنان کو فعال رکھا کوئی دوسری سیاسی جماعت یہ نہیں کر پائی یہ کارکنوں کو فعال رکھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ جمعیت نے ان بلدیاتی انتخابات میں حکومت کو اپ سیٹ کیا۔پاکستان تحریک انصاف 2013ء میں جو سونامی لے کر آئی تھی اسے 2018ء کے عام انتخابات میں تو برقرار رکھا گیا لیکن کے پی میں بلدیاتی انتخابات میں یہ سونامی خس و خاشاک کی طرح بہتا نظر آیا جس نے حکومت کے لئے پریشانیاں کھڑی کر دی ہیں اب سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ حکمران جماعت کے لئے یہ انتخابات مستقبل میں کیا مشکلات پیدا کر سکتے ہیں؟۔

بہر حال اب حکومت کے لئے عام آدمی کو ریلیف دینا ضروری ہو گیا ہے اگر آئندہ تین ماہ کے دوران حکومت عام آدمی کے مسائل کو کم کرنے میں کامیاب ہو گئی میں سمجھتا ہوں جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جو دھچکہ حکومت کو کے پی میں لگ چکا ہے پنجاب میں نتائج کے پی سے بہتر حاصل کر سکتی ہے۔ گو ان انتخابات میں شخصیات سے زیادہ انتخابی نشان اہمیت کے حامل ہوں گے لیکن یہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات پنجاب کی برادری ازم‘ذاتی تعلقات اور دھڑے بندی کی روایتی سیاست کے جمود کو نہیں توڑ سکے گی عوام اب مزید مسائل کا بار اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی مسائل کے حل کی واحد کرن جو عوام کو نظر آرہی ہے وہ حکومت ہی ہیں اپوزیشن میں وہ دم خم نہیں۔

خیال ہے حرف آخر نہیں عوام کا اپنے مسائل کے حل کے لئے ان انتخابات میں جھکاؤ حکومتی نمائندوں کی جانب زیادہ ہو گاکیونکہ بنیادی تعلیم‘صحت‘روزگار اور پینے کے صاف پانی جیسے معاملات بلدیاتی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں نظام مہذب اور ترقی یافتہ ممالک سے بہت مختلف ہے عام آدمی کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے بلدیاتی نظام کے تسلسل کو دوام دینے کی اشد ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :