کشمیر:اقوام متحدہ بھارتی مظالم پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے!

ہفتہ 5 فروری 2022

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

1947ء اور1949ء کے درمیان بھارت نے کشمیر کے رجواڑے پر اپنا غیر قانونی تسلط قائم کرنا شروع کر دیا تھا 1950ء کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو آئینی طور پر بھارت کا حصہ بنانا شروع کیا ۔اور اس ضمن میں پانچ اقدامات اٹھائے گئے پہلا کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے قیام کے ذریعے ایک نامزد حکومت کی تعیناتی‘دوسرا 1950ء میں انڈین آئین میں شق 370کی شمولیت‘تیسرا 1952ء میں نامزد حکومت اور انڈیا کے درمیان دلی معاہدے پر دستخط‘چوتھا 1957ء میں کشمیر کے نئے آئین کا اطلاق اور 1939ئکے پرانے آئین کو ختم کرنا اور پانچواں 1975ء میں اندرا شیخ معاہدے پر دستخط شامل تھے۔

1950ء میں انڈین آئین عمل میں آنے کے بعد آرٹیکل 1(3) اور 370کے تحت کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا دیا گیا آرٹیکل 370 میں اس بات کو دہرایا گیا کہ انڈین پارلیمان کے پاس صرف ان شعبوں میں قانون سازی کا حق ہو گا جو معاہدہ الحاق میں وضع کئے گئے ہیں انڈین پارلیمان کے پاس دفاع‘مواصلات اور خارجہ امور کے متعلق قانون سازی کا محدود حق تھا۔

(جاری ہے)

370 آرٹیکل کے تحت 205وفاقی قوانین کو کشمیر منتقل کیا گیا 1952ء میں جموں کشمیر آئین ساز اسمبلی نے موروثی حکمرانی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک منتخب سربراہ کو صدر ریاست کا خطاب دے دیا۔

1971ء میں جب بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ملاقات ہوئی تو شیخ عبداللہ نے 1953ء سے پہلے کی صورتحال اور 1952ء کے معاہدہ دلی پر عملدرآمد کے لئے زور دیا لیکن عبداللہ جو اس وقت جیل میں تھے انڈین حکومت کے دباؤ ڈالنے پر 1975ء کے کشمیر کارڈ پر راضی ہو گئیمعاہدے پر شیخ عبداللہ کی جگہ افضل بیگ نے دستخط کئے اس معاہدے میں صرف آرٹیکل 370 قائم رہا جس کے تحت جموں کشمیر کی ریاست کو آزادی کی ضمانت دی گئی۔

بہر حال یہ کشمیر کی آئینی آزادی سے لے کر کشمیریوں کی شخصی آزادی پر قدغن لگانے تک کی ایک ایسی جبر پر مبنی سفاک کہانی ہے جسے صرف کالم کی چند سطروں میں سمونا ممکن نہیں ہے پانچ اگست2019ء کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب غاصب بھارت نے وادی کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر کشمیر کی ریاستی اسمبلی سے مشاورت کئے بغیر اس کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔

ان حالات میں ایک نیا آئینی آرڈر 2019ء کیا گیا جس کے تحت ریاست جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور کشمیر میں مواصلاتی پابندی عائد کر دی گئی اور اپنے اس غاصبانہ قبضہ کو تقویت دیتے ہوئے کشمیر میں تعینات فوج میں اضافہ کرتے ہوئے اس کی تعداد ساڑھے سات لاکھ کر دی۔کشمیر کی خصوصیٰ حیثیت خٹم کرنے کا مطلب انڈین آئین کے آرٹیکل 370اور 35A کے تحت کئے گئے وعدے اب نہیں رہے اور اب مقبوضہ کشمیر پر دلی کی براہ راست حکمرانی ہو گی۔

بھارت کی جانب سے ان یک طرفہ آئینی ترامیم کے اثرات خطے کی سیاست پر بھی مرتب ہوئے اور پاکستان اور چین بھی اس تنازع میں شریک ہیں اس وقت دونوں ممالک نے نیپال میں مقیم چینی سفارت خانے کے ذریعے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی طرف سے منظور شدہ حل کی پاسداری کی جانی چاہئیے۔اگر دیکھا جائے تو اقوام متحدہ میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے تحفظ کے لئے کئی قرار دادیں منظور کی گئی ہیں جن کا اطلاق انڈیا پر ہوتا ہے ان میں20جنوری 1957ء کو منظور ہونے والی قرارداد 122شامل ہے جو کشمیریوں کی حق خود اردیت کو تسلیم کرتی ہے۔

کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے اس معاملے پر ایک ابتدائی اعلامیہ تشکیل دیا جا چکا ہے جس کے تحت ممالک پر ایک مخصوص رویہ اپنائے رکھنا لازمی ہے ۔بھارت کی جانب سے کشمیر میں ڈومیسائل لاء متعارف کروانے جیسے یک طرفہ اقدامات سے اخذ کرنا دشوار نہیں کہ کہ بھارت خود کو خطے میں ایک قابض طاقت کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کا خواہاں ہے۔

شائد قابض بھارت یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر سے متعلق نئے آئینی اقدامات متعارف کروانے سے اس حقیقت کو تبدیل کر پائے گا کہ بین الا قوامی قوانین کے تحت کشمیر ایک متنازع خظہ ہے بین الاقوامی برادری نے غیر قانونی قبضے کے حوالے سے ایک متواتر پالیسی تسلیم کی ہے جیسا کہ بالٹک ریاستوں فلسطین‘کرائیمیا اور کویت کی مثالوں سے واضح ہے۔جنت نظیر کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو جہاں بھارت دہشت و وحشت کی فضاء قائم کر کے دبانے کی مذموم کوشش کر رہا ہے وہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی پس پشت ڈال کر خطے میں چوہدراہٹ کا خواب دیکھ رہا ہے۔

2016ء میں حریت پسند مجاہد برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیری نوجوانوں میں بھارت مخالف سرگرمیاں شدت کے ساتھ دیکھنے میں آرہی ہیں جس کی وجہ سے کشمیر میں موجود بھارتی فوج کے لئے آزادی کی تحریک سوہان روح بنتی جا رہی ہے۔دو سال قبل نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ کشمیر میں بھارتی فوج کا رویہ سفاکانہ اور بزدلانہ ہے بھارت کشمیر میں جو مسلمانوں کے خون سے ہولناک تاریخ رقم کر رہا ہے اس سے بھارتی چہرہ بری طرح بے نقاب ہو گیا ہے اب تو بھارتی میڈیا اور دانشور طبقہ بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے ۔

بھارتی دانشور سنتوش بھارتیہ کا مودی سرکار کو لکھا گیا کھلا خط ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ اگرچہ کشمیر کی زمین ہمارے ساتھ ہے لیکن کشمیری ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔حکمران پارٹی کے راہنما سابق وزیر خارجہ یشونت سنگھ کی جانب سے کھلاتاریخی اعتراف کہ کشمیر کے متعلق نئی دہلی کی پالیسی کنفیوژن کا مجموعہ ہے اور کشمیری عوام جذباتی طور پر بھارت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

بھارت کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں نے کشمیر میں ہونے والے مظالم اور مودی سرکار کی غاصبانہ ہٹ دھرم پالیسیوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے ۔پاکستان میں موجود میڈیا اور دانشور طبقہ کو چاہئیے کہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے خلاف بھر پور آواز بلند کرتے ہوئے بھارت کے غیر جمہوری چہرہ کی دنیا کے سامنے نقاب کشائی کرے تاکہ دنیا جان سکے کہ بھارت کا اصل چہرہ کتنا بھیانک ہے۔

موجودہ حکومت کو بھی چاہئیے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کے حق میں بھر آواز بلند کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ ہموار کرے تاکہ بھارت اقوام متحدہ کی قرادادوں کی پاسداری کرنے پر مجبور ہو ۔انسانی حقوق کے علم بردار عالمی ادارے اقوام متحدہ کو بھی چاہئیے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی ہونے والی پامالیوں کا نوٹس لے اور تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دے تاکہ جمہوری تقاضوں کے تحت کشمیری مسلمانوں کو استصواب رائے کا حق مل سکے اور کشمیری مسلمان آزاد اور خود مختار حیثیت میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :