”ایک پیج پر“

جمعہ 4 فروری 2022

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

دنیا گلوبل ویلج بن کر انسانی پوروں میں سمٹ آئی ہے غور کریں وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت خود کو تبدیل کئے بغیر یہ ممکن ہوا قطعا نہیں دنیائے عالم میں نت نئے تجربات‘مشاہدات کے بعد دنیا ترقی کے سفر پر گامزن ہوئی ہے۔اور یہ طے ہے کہ ہم بحر و بر کی دنیا میں وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت خود کو ڈھال کرترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں انسانی خیالات اور نظریات کی بھی ایک مدت متعین ہوتی ہے اگر آپ کے خیالات و نظریات وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے تو فکری موت کے ساتھ غیر متوقع تبدیلی کے آتے ہی خیالات و نظریات بھی دم توڑ جاتے ہیں۔

قوموں کی ترقی و عروج کی تاریخ کا مشاہدہ کر لیں قوموں کی ترقی و عروج کے پس پردہ اہل قلم‘ادیب اور دانشور کی سوچ اور فکر موجود ہو گی ۔

(جاری ہے)

ہمارے ملک میں دراصل گنگا الٹی بہہ رہی ہے اہل قلم اور دانشور طبقہ کی ایک ایسی کھیپ موجود ہے جو ان کرسیوں کے کیڑوں کی حفاظت میں شخصیت پرستی کا شکار ہو کر اپنی ذمہ داری سے مفر اختیار کئے ہوئے ہیں۔اس وقت ملک کو نہ صرف سیاسی و معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے بلکہ ملک دشمن قوتوں کی جانب سے داخلی و خارجی سطح پر بھی چیلنجز کا سامنا ہے ملک دشمن قوتوں نے پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں میں بیج بو کرجو آبیاری کی ہے اسی کے باعث نظام عدم استحکام کا شکارہے اگر اس فصل کو کاٹا نہ گیا تونہ ملک میں بے لاگ احتساب کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے اور نہ ہی ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لایا جا سکتا ہے ۔

تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کر چکی ہے یہ طے ہے کہ ملکی معشیعت کو اس قدر استحکام نہیں مل سکا کہ عام آدمی یہ برملا کہہ سکے کہ اس کا آج کل سے بہتر ہے مہنگائی بلند ترین سظح کو چھو کر عوام کی کمر پر کوڑے کی صورت برس رہی ہے حالانکہمیں سمجھتا ہوں مہنگائی عوام کا مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ روزگار ہے اور اس سلسلے میں حکومت ایسے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے جس سے عام آدمی کے لئے روزگار کے مواقع فراہم ہو سکیں اس پر ایک مفصل کالم لکھوں گا۔

صرف مہنگائی کی صورتحال نے اپوزیشن اور سرمایہ دارانہ سوچ کی کھوکھ سے جنم لینے والے دانشور طبقہ کو آکسیجن فراہم کی ہے اپوزیشن اور یہ تنخواہ دار دانشور طبقہ عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش میں ہے کہ حکمران جماعت(تحریک انصاف) عوام سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ حالانکہ اپوزیشن کا اس قومی سیاست میں کس حد تک کردار ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اپوزیشن ایسے ایشوز پر بات کرتی نظر آتی ہے جن ایشوزکا عوام سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ۔

تحریک انصاف کو عوام نے پانچ سال کے لئے منتخب کیا ہے۔ہمیں بہتری کی امید رکھنی چاہئیے نہ کہ کارپوریٹ کلچر کے حامی سیاستدانوں اور میڈیاکے بے بنیاد پراپیگنڈا کا شکار ہو کر مایوس نہیں ہونا چاہئیے میں یہاں ممتاز سینئر کالم نویس اسد اللہ غالب کی نئی کتاب ”ایک پیج پر“کا تذکرہ اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب ان حالات میں سامنے آئی جب چہار جانب سے ایک منتخب حکومت کی کشتی میں سوراخ کرنے کے لئے جمہوریت کالبادہ اوڑھے سیاسی قوتیں غیر جمہوری سوچ اور طرز سیاست کے ذریعے ایک صفحہ پر جمع ہیں اور اپنے سیاسی اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے ریاستی اداروں پر اپنے زہر آلود نشتر چلانے سے بھی گریز نہیں کر رہی ہیں ۔

اس وقت پاکستان چار بڑے مسائل سے نبرد آزما ہے جو نظام کو ساکت کئے ہوئے ہیں پہلا ظالم جاگیر دارانہ سرمایہ دارانہ نطام یہ جاگیر دار طبقہ اس خود ساختہ نظام کے ذریعے لینڈ مافیا‘پٹورای مافیا‘پولیس مافیا‘ڈی سی مافیا کو سپورٹ کرتا ہے اور جاگیر دار اور بزنس ٹائیکون اس نظام کو گرنے نہیں دیتے کیونکہ اس نظام کی رگوں میں ان کے مفادات کا خون گردش کرتا ہے۔

دوسرا جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ناخواندگی ‘تیسرا ناقص عدالتی نظام جس نے نظریہ ضرورت کا پودا لگنے دیا چوتھا مسئلہ ہمارا زر خرید میڈیا ہے جو صرف لفافہ کے حصول کے لئے ملکی سلامتی سے کھلواڑ کرنا بھی اپنا فرائض منصبی سمجھتا ہے یہ چار ایسے بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے ملک عدم استحکام سے دوچار ہے۔جس ملک کے نظام کے سامنے یہ خود ساختہ نظام سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوں وہاں معاشرہ مسائل کی آمجگاہ بن کر دہشت و وحشت کی علامت بن جاتا ہے۔

اسد اللہ غالب کی قلمی جدوجہد قاری کے لئے بڑی حوصلہ افزا ہے وہ اپنی قلم سے معاشرے میں ایک ایسی کھیپ تیار کرنے کی سعی کر رہے ہیں جو اپنے مسائل کے حل کے لئے فکر مند ہوں۔ گورنر ہاوس کے دربار ہال میں کالم نویس اسد اللہ غالب کی کتاب”ایک پیج پر“کی تقریب پذیرائی میں تقریب میں راقم سمیت دانشوروں کی اس محفل میں سابق آئی جی پنجاب پولیس الطاف قمر بھی شریک تھے۔

اسد اللہ غالب کی کتاب’ایک پیج پر‘کی تقریب پذیرائی کے دوران گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور ‘یفٹینٹ جنرل(ر)غلام مصطفی‘افتخار سندھو اور سینئر صحافی‘کالم نویسں مجیب الرحمن شامی نے ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر سیاست اور ریاست کے کردار اور ملک کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ممکنہ درپیش خطرات اور چیلنجز پرمفصل اظہار خیال کیا ۔

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ریاست اور سیاست ”ایک پیج پر“ ہیں رابطوں میں فقدان نہیں ریاست اور سیاست میں ایسا کوئی فاصلہ نظر نہیں آرہا جس سے صاحب کتاب اسد اللہ غالب کی کتاب نفی کر رہی ہو یہ کتاب ملک سے محبت کرنے والوں کے لئے اپنے اوراق کے در وا کئے ہوئے ہے کتاب لائق مطالعہ اور صاحب کتاب مبارکباد اور تحسین کے حقدار ہیں ۔المیہ ہے کہ ہمارے ہاں کتاب بینی اور کتاب خرید کر پڑھنے کا رواج نہیں ہے والدین اپنے بیٹے کے لئے بیٹ‘بال‘گٹار اور بیٹی کے لئے گڑیا یا میچنگ ڈریس خریدیں گے اسے اچھے ہوٹل لے جائیں گے لیکن مجال اسے ایک بار کسی کتاب گھر یا لائبریری لے کر جائیں قوموں کے عروج و زوال میں کتاب کے مطالعہ کو کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے۔

اس سلسلے میں آخری لیکن اہم گزارش ہے کہ اساتذہ اور پروفیسر صاحبان اپنے طالب علموں کو لکیر کا فقیر نہ بنائیں مطالعے کی اہمیت کو اجاگر کریں کورس کے علاؤہ کتب بینی کی ترغیب دیں تاکہ نسل نو رٹا کی بجائے مختلف موضوعات پر بات کرنے اور اپنے اذہان کو کھولنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں بصورت دیگر ہم ”نیوٹن بابا“کو شرعی پردہ کروانے کی ترغیب دیتے رہیں گے اور مغرب ہم پر حکمرانی کرتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :