سچ تو یہ ہے!

پیر 21 ستمبر 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

”سچ تو یہ ہے“ممتاز مئورخ‘مصنف اور کالم نویس ڈاکٹر صفدر محمود کی نئی کتاب کا نام ہے جیسے قلم فاؤنڈیشن انٹر نیشنل نے حال ہی میں شائع کیا پبلشر علامہ عبدالستار عاصم صاحب نے کمال محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کتاب کا ایک نسخہ بذریعہ ڈاک راقم کو ارسال کیا۔یہ کتاب اس حوالہ سے بھی انفرادیت کی حامل ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں لیکن اس کتاب میں مصنف نے شواہد کے ساتھ بڑے مدلل انداز میں قائد اعظم اور تاریخ پاکستان کے نظریاتی مخالفین کے بے بنیاد الزامات اور منفی پراپیگنڈا کا جواب دے کر حقائق کو مسخ کرنے والے ناقدین کے منہ بند کر دئیے۔

ڈاکٹر صفدر محمود کی اس کتاب نے تاریخ سے رغبت رکھنے والوں میں اپنی مقبولیت کا لوہا منوا کر ایک مستند دستاویز کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔

(جاری ہے)

میری نظر میں قائد اعظم اور تاریخ پاکستان کے حقائق کو جس طرح سازشی ٹولہ نے اپنی منفی تحریروں اور کتابوں کے ذریعے نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ان تمام منفی پراپیگنڈا کو مصنف نے دلائل اور تحقیق کے ساتھ بے نقاب کر کے اور تاریخ کو مسخ کرنے والے سازشی عناصر کا راستہ روک کر تاریخ سے رغبت رکھنے والوں اور نوجوان نسل پر احسان عظیم کیا ہے۔

ڈاکٹر صفدر محمود تاریخ پاکستان کے ایسے محقق اور مئورخ ہیں جن کی متعدد کتابوں کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنف کی تحریر یں تواتر کے ساتھ ملک کے مختلف مئوقر اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ان کی کتاب ”سچ تو یہ ہے“ تاریخ پاکستان اور قائد اعظم کی حیات کے متعلق ایک ایسا سچ ہے جو پاکستانی تاریخ کے ایک سنہری باب کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔

المیہ ہے کہ ملک میں حکومت کی سرپرستی نہ ہونے کے باعث کتب خانے نہ ہونے کے برابر ہیں یہی وجہ ہے کہ صاحب علم و فکر رکھنے والے افراد ایسی مستند کتابوں سے محروم ہیں مصنف کی اس کتاب کا تاریخ سے ذوق رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تا کہ قائد اعظم اور تاریخ پاکستان کے بارے مصنف کی شواہد پر مبنی سرشارمستند تحریوں سے قائد اعظم کی زندگی اور تاریخ پاکستان کی درست سمت کا جہاں تعین ہو سکے وہیں حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے والے تاریخ دشمن عناصر کی نشاندہی بھی ہو سکے یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن انٹر نیشنل یثرب کالونی بینک سٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ پر دستیاب ہے۔

کتاب دوستی کو پروان چڑھانے کے لئے سرکاری سطح پر کثیر تعداد میں پبلک لائبریریوں کے قیام کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو کتاب خریدنے کے لئے کسی فٹ پاتھ کی تلاش نہ کرنی پڑے جہاں علم و فکر سے بیدار تحریوں سے مزین کتابیں گرد میں اٹی نہ ملیں۔یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ جس معاشرے میں علم و تحقیق اور مطالعہ کا عمل رک جائے وہ معاشرہ ذہنی و فکری طور پر مفلوج ہو جاتا ہے علم دوست معاشرے میں کتب بینی قوموں کی زندگی میں روشن قندیل کی مانند ہوتی ہے جب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کے معاشرے میں اپنے قدم جمائے اور سوشل میڈیا کے رجحان میں اضافہ ہوا تب سے انسان نے اس قندیل سے استفادہ حاصل کرنا آہستہ آہستہ کم کر دیا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ وہی اقوام نے ترقی کے زینوں پر قدم رکھے اور فاتح اقوام کی صف میں اپنے آپ کو شمار کروایا جنہوں نے قلم کو بطور ہتھیار اور کتاب سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔تاریخ میں چند غیر مہذب قوموں کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو انہی اقوام نے دنیا کے سامنے اپنے معاشروں کو بہترین لیبارٹری کے طور پر پیش کیا جنہوں نے اپنی قوم کو کتاب سے دوستی کی ترغیب دی اور کتاب دوست بنایا ۔

کتاب انسان کے لئے جہاں اہم علمی و فکری اثاثہ ہے وہیں یہ انسان کے لئے امید کا محور بھی ہے کتاب دوستی کی اہمیت سے متعلق معروف فلسفی سقراط کا یہ قول غور و فکر کا متقاضی ہے کہ ”وہ گھر جس میں کتابیں نہ ہوں اس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو“اسی طرح انگریز دانشور جان ملٹن لکھتا ہے ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح سے آشنا کروانا ہے۔

آج بھی مغرب کی ترقی و خوشحالی میں کلیدی کردار کتب بینی اور کتاب دوستی کا ہے دنیا بھر میں جاپان کے اشاعتی کاروبار کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے وہاں لوگوں میں کتاب خریدنے اور مطالعہ کا رجحان کافی پایا جاتا ہے جاپان کی آبادی تقریبا ساڑھے گیارہ کروڑ ہے اور سال بھر میں تقریبا اسی کروڑ کتابیں فروخت ہوتی ہیں گویا ہر جاپانی سال میں ساڑھے چھ کتابیں ضرور خریدتا ہے۔

تاریخی تناظر میں دیکھ لیں مسلم تہذیب کتب بینی اور کتاب دوستی کے حوالے سے منفرد و ممتاز اہمیت کی حامل ہے علوم و فنون کی ترقی میں اسلامی تہذیب کا کردار لازوال ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف علم و تحقیق کی جستجو میں کس قدر اعلیٰ اقدار کے حامل تھے۔جب تک مسلمانوں میں کتاب دوستی کا رجحان قائم رہا تب تک دنیا ان کے زیر نگیں رہی لیکن جیسے ہی علم و تحقیق کے دروازے انہوں نے خود پر بند کر لئے تو محکومی و زوال کے دائرے وسیع ہوتے چلے گئے ا وریہ بات سچ ہے جو قوم کتاب سے جڑی ہو اس قوم کے لئے دنیا کو تسخیر کرنا ناممکن نہیں ۔

بغداد کے خلیفہ ہارون الرشید اور ان کے بیٹے مامون الرشید تاریخ کا زندہ و جاوید کردار ہیں خلیفہ مامون الرشید نے بیت الحکمت کے نام سے ایک عظیم کتب خانہ تعمیر کروایا جس کا فیض ہلاکو خان کے حملہ بغداد(تیرہویں صدی) تک جاری رہا یہ پہلا پبلک کتب خانہ تھا جو اعلیٰ پیمانے پر قائم کیا گیا تھا اور اس بے مثال کتب خانے میں عربی‘فارسی‘سریانی اور سنسکرت زبانوں پر مشتمل دس لاکھ کتابیں تھیں۔

مسلمانوں کا وہ سنہری دور تھا جس میں مسلمان معاشرہ کتاب لکھنے‘خریدنے اور پڑھنے میں سب سے آگے تھا علم فلکیات‘ریاضی‘طب‘کیمیا اور طبعیات کے میدان میں کتاب کی تخلیق و اشاعت اور مطالعہ مسلم معاشرے میں عام تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ علم و ادب اور کتاب سے دور ہوتا چلا گیا اور اسی کے باعث مسلمان اقوام عالم کی نسبت ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ۔

بد قسمتی سے آج کتاب سے دوری کا یہ عالم ہے کہ کتاب جو کتب خانوں کی زینت سمجھی جاتی تھی فٹ پاتھ پر پڑی ہے اور یہ ہماری اخلاقی پستی اور علمی پسماندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے اسی وجہ سے آج معاشرے سے سچ‘رواداری اور اقدار رخصت ہوتی جا رہی ہیں۔ہمارے اسلاف نے ہمیں کتاب اور علم و ادب سے محبت کا درس دیا ڈاکٹر علامہ اقبال ادب(علم و تحقیق)اور دین میں گہرا تعلق بیان کرتے ہوئے اسے قوموں کی خودی کی تعمیر کا اہم ذریعہ گردانتے ہیں۔

عصری تقاضوں کو بھانپتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوامی سطح پر کتاب دوستی کا شعور اجاگر کرنے کے لئے مختلف ثقافتی و ادبی میلوں اور سرگرمیوں کا انعقاد کرے تاکہ معاشرے میں نوجوان نسل کو کتب بینی کی جانب مائل کیا جا سکے پبلک لائبریرز کا قیام اور ان کی بحالی وقت کی ضرورت ہے۔اگر حکومت کتب بینی کے حوالے سے ٹھوس عملی اقدامات اٹھائے تو یقیننا جہاں معاشرے کے افراد میں کتب بینی کے رجحان میں اضافہ ہو گا وہیں معاشرے میں بسنے والے افراد کی ذہنی و فکری آبیاری بھی ہوگی اور ہم اپنی ثقافتی روایات کے اچھے محافظ بھی بن سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :