
عدم برداشت‘سیاسی و معاشرتی اخلاقی گراوٹ!
اتوار 11 اکتوبر 2020

راؤ غلام مصطفی
(جاری ہے)
ایک وقت تھا ج ب مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کے درمیان مناظرے اور مباحثے ہوا کرتے تھے لوگ ایک دوسرے کی بات کو تحمل مزاجی کے ساتھ سنتے‘حسن ادب کے ساتھ اختلاف رائے بھی کرتے لیکن احترام آدمیت کا وقار کبھی بھی اپنے رویوں اور اخلاقی قدار کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کھونے نہیں دیا ۔
اب جو موجودہ صورتحال ماضی کی نسبت بلکل بر عکس ہے آج لوگ اظہار رائے کا سلیقہ بھول چکے ہیں آج کے مباحثوں میں شدت پسندی‘جارحانہ پن‘غصہ‘عدم برداشت اور گالی گلوچ کا کلچر نمایاں ہے اب لوگ نظریاات کا جواب ذاتیات پر تنقید سے دیتے ہیں۔عدم برداشت کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ہمہ جہت ہیں بہت سے نفسیاتی‘اخلاقی‘معاشی اور سماجی مسائل عدم برداشت کو جنم دے رہے ہیں ایک معاشرے میں مختلف مزاج کے حامل افراد بستے ہیں کچھ لوگ جذباتی اور کچھ قدرے معتدل مزاج رکھتے ہیں اکثر یہ ہوتا ہے کہ جذباتی لوگ ذرا سی بات پر سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں جس کے باعث ردعمل کے طور پر فریق مخالف کے رویوں سے اٹھنے والی چنگاری اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ماہرین کی رائے میں یہ منفی رویہ دراصل ہمارے اندر پوشیدہ مایوسی سے جنم لیتا ہے ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ہمارے نوے فیصد مسائل کی وجہ عدم برداشت ہے کیونکہ اس سے بہت سی ذہنی‘نفسیاتی‘اخلاقی اور سماجی قباحتیں جنم لیتی ہیں ۔ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم کی شرح میں بتدریج اضافے کے رجحان کی وجہ معاشرتی استحصال‘ انصاف کی عدم دستیابی اور لاقانونیت کی وجہ سے ہے۔ملک میں عدم برداشت کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں ایک مثبت رویہ بہت سے مثبت رویوں کو جنم دیتا ہے اپنی رائے کو حتمی سمجھنا ‘بے جا تنقید‘بے مقصد اور لاحاصل بحث اور طعن و تشنیع کو ترک کر کے ہم معاشرے سے عدم برداشت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی جس مخلوق کو اشرف المخلوقات کا مرتبہ حاصل ہے وہ محض اس لئے کہ ابن آدم چرند‘پرند اور درند سے زیادہ عقلمند ہے اس میں باہمی ہمدردی‘دکھ درد اور وعدوں کی پاسداری کا احساس زیادہ پایا جاتا ہے لیکن آج کے جدید ترین ترقی یافتہ دور میں اس اشرف مخلوق کی عدم برداشت اور اخلاقی پستی کے باعث یہ تما م اشرف صلاحیتیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں جھوٹ‘دھوکہ‘مکاری‘فتنا پن‘حرام کی کمائی‘اور عیاشی اس کی فطرت کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ملکی معاشرہ کبھی تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا لیکن آج یہی معاشرہ بد ترین تہذیبی و اخلاقی قدروں کی پامالی سے گذر رہا ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار کی پستی اور ہمارے رویوں کی شدت پسندی نے اسے جنگل راج میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔اس معاشرے میں جو ہولناک‘دہشتی و حیوانی جنسی ہوس کے خوفناک واقعات اس پاک سر زمین کے جھومر کو داغدار کر رہے ہیں اس سے انسانیت درگو ہوتی جا رہی ہے۔ملکی دھرتی پر ایسے ایسے بدترین حیوانی واقعات جنم لے رہے ہیں جن کو تحریر کرتے ہوئے ہاتھوں کی انگلیاں کانپ اٹھتی ہیں الجھن سے ذہنی تناؤ بڑھ جاتا ہے جس معاشرے میں حیوانیت کے ہاتھوں سر بازار بنت حوا کی لٹتی عصمتوں پر کربناک آہیں اور انصاف کی دہائیاں قانون کو بیدار نہ کر سکیں وہاں کے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی شئے اخلاق ہے اچھے اور عمدہ اوصاف وہ کردار ہیں جس کی قوت اور درستی پر قوموں کے وجود‘استحکام اور بقاء کا انحصار ہے معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قوی‘صحت مند اور باصلاحیت قوم وجود میں آتی ہے۔جس معاشرے میں اخلاقی قدریں زوال پذیر اور عدم برداشت کے رجحان میں اضافہ ہو اس معاشرے کو یہ وبا گھن کی طرح کھا جاتی ہے اور اس معاشرے میں کبھی اجتماعی رواداری‘مساوات‘اخوت و باہمی بھائی چارے کو فروغ میسر نہیں آتا۔وطن عزیز کا معاشرہ اخلاقی گراوٹ اور عدم برداشت کے باعث تنزلی کی جانب گامزن ہے اخلاقی پستی اور عدم برداشت معاشرے میں خطرناک رجحان کی نشاندہی کر رہی ہے اور یہ فکر مند اسباب معاشرے کے وجود‘استحکام اور بقاء کے لئے زہر قاتل ہیں۔ملک کی سیاست اور سیاستدانوں کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لے لیں تو ان کے اخلاق اور عدم برداشت کا پیمانہ یہ ہے کہ جوپارلیمان ملک و ملت کے مفادات ‘ملکی سلامتی اور اسکی ترقی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں وہاں ہمارے ملکی سیاستدان اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں عوام کے منتخب نمائندوں کے اخلاقیات سے عاری اسکینڈلز اخبارات کی زینت بنتے ہیں اور ٹی وی نیوز چینلز پر نشر ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے قبیح چہروں کے ساتھ معاشرے میں اپنا سیاسی چورن بیچتے نظر آتے ہیں ۔جس معاشرے کی اخلاقی پستی کا یہ حال ہو وہ معاشرے کیسے ترقی اوراستحکام کا ضامن بن سکتا ہے ملکی معاشرے کی قیادت کبھی بھی اخلاقی قدروں کی پامالی اور رویوں میں عدم برداشت کے ساتھ ملکی ترقی و خوشحالی کی معاشرے میں بسنے واے افراد کو ضمانت فراہم نہیں کر سکتی اخلاقی زوال اور عدم برداشت کے خاتمہ کے لئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بدلنے کی ضرورت ہے جب تک ہم اپنی اخلاقیات کو درست نہیں کر لیتے اور اپنے رویوں مثبت تبدیلی نہیں لاتے تب تک ہم کبھی بھی دنیا کے مہذب معاشروں کی صف میں جگہ بنانے کے اہل نہیں ہو سکتے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر مثال بنتے ہوئے اس کی شروعات کرنے کی سعی کرنی چاہیے جس میں میڈیا اور ملکی سیاستدان اپنے عمل سے معاشرے میں اس خطرناک رجحان کے خاتمہ کے لئے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے عدم برداشت کے رویوں کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کو بھی فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
راؤ غلام مصطفی کے کالمز
-
کثرت رائے کی خدمات ‘حکومتی چشم پوشی کیوں؟
بدھ 16 فروری 2022
-
کرناٹک واقعہ اوربھارت کا بھیانک چہرہ!
ہفتہ 12 فروری 2022
-
کشمیر:اقوام متحدہ بھارتی مظالم پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے!
ہفتہ 5 فروری 2022
-
”ایک پیج پر“
جمعہ 4 فروری 2022
-
بلدیاتی نظام کے تسلسل کو قائم رکھنے کی ضرورت!
اتوار 23 جنوری 2022
-
بھارت میں نسل پرستوں کیخلاف نصیرالدین شاہ کی آواز!
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
اشک شوئی کی ضرورت!
اتوار 5 دسمبر 2021
-
موروثی سیاست اور جمہوریت!
منگل 2 نومبر 2021
راؤ غلام مصطفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.