ناداں گر گئے سجدوں میں

پیر 1 فروری 2021

Romana Gondal

رومانہ گوندل

 جب سے دنیا وجود میں آئی ہے ، الہامی مذہب صرف اسلام ہی رہا ہے۔ ہر دور میں آنے والے انبیاء اسی مذہب کی تبلیغ کے لیے مبعوث کئے گئے ، باقی مذاہب جو الہامی ہونے کا دعوی کرتے ہیں، دراصل اسلام سے تحریف سے وجود میں آئے ہیں۔ تمام انبیاء نے اپنی امتوں کو اسلام کی طرف ہی بلایا تھا،لیکن ان کے جانے کے بعد لوگوں نے ان تعلیمات کو بھلا دیا اور ان میں تحریف کر لی۔

ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء یکے بعد دیگرے مختلف ادوار میں آئے اور ہر دور میں آنے والے انبیاء ، اس دور کے تقاضوں کو پورا کرتے تھے کیونکہ ہر دور میں لوگوں کے رحجان اور دلچسپیاں مختلف رہی ہیں۔ حضرت موسی کے دور میں جادو کا زور تھا، اسی لیے انہیں جو معجزے دیئے گئے وہ جادو کا بہترین جواب تھے جس کو جادو گر دیکھتے ہی سمجھ گئے تھے اس لیے ایمان لے آئے ۔

(جاری ہے)

نبیﷺ کو کلام کی بہترین صلاحیت دی گئی ، آپ کی بات میں بہت تاثیر رکھی گئی اور قرآن جیسا بہترین کلام دیا گیا تھا۔کیونکہ عربوں کو اپنی ذبان دانی پہ بہت فخر تھا، لیکن قرآن جیسا کلام لانا ان کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔انبیاء کے بعد اسلام کی تبلیغ ، امتِ محمدیہ کی ذمہ داری ہے۔
اسلام اس دور میں قابلِ عمل نہیں رہا۔

اکیسویں صدی کے تقاضے مختلف ہیں۔ اسی طرح کی آوازیں ہر طرف سے آ رہی ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ دین نہیں، دین دار قابل قبول نہیں رہے۔ ہمارے ہاں وہ بچے دین پڑھنے بھیجے جاتے ہیں جو جسمانی یا ذہنی طور پر دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور وہ پڑھتے بھی ان مدروسوں میں ہیں جہان بنیادی ضروریات تک میسر نہیں ہوتی، محض چندے سے چلنے والے ادارے اور اساتذہ کا اپنا علم بھی محدود ہوتا ہے ۔

جہاں سے نکلنے والے بچے تنگ نظری کا وہ سبق لے کے نکلتے ہیں جس کے ساتھ انہیں دنیا کا ہر انسان کافر اور گناہ گار لگتا ہے۔ یہ مدرسے اور ان کو چلانے والے اپنے محدود وسائل میں جو کام کر رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے لیکن دین کو صرف ان کے حوالے کر دینا ٹھیک نہیں ہے۔کیونکہ آج کے اس ترقی یافتہ دور کے تقاضے بدل گئے ہیں اور ان بدلے ہوئے تقاضوں میں یہ لوگ کیسی تبلیغ کر یں گئے۔

جن بچوں کو کافروں کی ذبان کہہ کر، انگلش سے دور رہنے کا کہا گیا ہو وہ امریکہ یا انگلینڈ میں رہنے والے غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام کیسے پہنچائے گئے۔
ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ملکہ سبا کو تبلیغ کرنے والے حضرت سلیمان ایک بادشاہ تھے۔ آج کے اس دور میں بھی اسلام تب پھیلے گا جب ہمارے ڈاکٹر، پائیلٹ اور آکسفورڈ اور کیمبرج جانے والے طالب علم اسلام کو سمجھے گئے کیونکہ اسلام دور بیٹھ کے فتوؤں سے نہیں پھیلتا بلکہ ساتھ گھل مل کے بیٹھنے سے پھیلتا ہے۔

ہمیں یہ خود بھی ماننا ہے کہ اسلام دنیا سے کٹ کر جنگل میں جانے کا نام نہیں ہے ، نہ بھوکے پیاسے ، پھٹے پرانے کپڑوں میں مر جانے کا نام ہے۔اور نہ ہی اسلام ترقی اور ایجادات سے روکتا ہے۔ بلکہ اسلام تو سکیھاتا ہے کہ اس کائنات کے رازوں کو جانو ، ان کو تلاش کرو، اس کائنات کو تسخیر کرو اور اس میں چھپی ہوئی نشانیوں سے اپنے رب کو پہچانو ، نعمتیں استعمال کرو لیکن اپنے رب کا ذکر اور شکر کرنا نہ بھولو۔


اسلام بے شک امن کا دین ہے ، دوسروں کو تکلیف دینے سے روکتا ہے لیکن اپنے تحفظ کی اجازت بھی دیتا ہے اور اس کے لیے اسلحہ تیار رکھنے کا حکم بھی دیتا ہے تا کہ دشمنوں کے دل میں رعب رہے۔ در اصل اس دنیا میں اعتدال سے رہنے کا نام ہی اسلام ہے اور یہی بات مسلمان بھول گئے ۔ کچھ نے دنیا سے کٹ جانے کا نام دینداری رکھ لیا اور باقی دین سے کٹ گئے کیونکہ انہیں دنیا میں جینا ہے۔ اس طرح کٹے بٹے ہوئے مسلمان کیسے تبلیغ کے فرائض کو نبھائیں گئے۔
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :