
کوئی ایسا کام کر جائیں ۔۔
بدھ 5 اگست 2020

رقیہ غزل
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غیر شائستہ اور توہین آمیز رویہ کسی کوبھی پسند نہیں ہوتا مگر زہر ہلاہل کو قند کہنے والے کتنے حق گو باقی رہ گئے ہیں اب مولانا ظفر علی خان جیسے صحافی نہیں رہے جنھوں نے اقتدار فرنگی کو اپنی قلمی تلوار سے کاری ضربیں لگائیں اور ہلا کر رکھ دیااب تو بیشتر لکھاریوں نے الفاظ کی جگالی کو ہی اظہار رائے کی آزادی سمجھ لیا ہے بعض تو خود کو ایسا پہلوان ظاہر کرتے ہیں جو حق و باطل کے معرکے میں تن تنہا ہی لڑ رہا اور معاشرتی بد صورتیوں اور ریاستی اداروں کی کوتاہیوں پر نوحے لکھ رہا ہوتاہے جبکہ پس پردہ ہر شخص بضد ہے کہ اس کا سچ ہی سچ ہے باقی سب جھوٹ ہے اور اس پر بس نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہے کہ اس سچ کی بنا پر اسے پوجا جائے ۔
(جاری ہے)
اگرچہ سوشل میڈیا کو پوری دنیا میں اظہار رائے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے چونکہ ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں عوامی مسائل بہتر انداز میں اجاگر ہوجاتے ہیں لیکن آج کل حکومتی ایوانوں میں اسے خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کیونکہ ہر وہ کام جو ذاتی مفادات اور اسلامی نظریات کے منافی کرنیکی کوشش کی جاتی ہے اس کے خلاف سوشل میڈیا پرمکالمے کا آغاز ہو جاتا ہے با لآخر حکومت کو یو ٹرن لینا پڑجاتا ہے جو کہ نا قابل برداشت ہو چکا ہے المیہ یہ ہے کہ مجوزہ کاروائی بھی وزیراعظم کے منشور کے خلاف ہے چونکہ ماضی کے حکومتی ادوار میں خوشامدی لکھاریوں کا بول بالا تھا اور حق لکھنے والے اکثر زیر عتاب رہتے تھے توخان صاحب نے اس کے خلا ف آواز اٹھائی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی عوامی رائے کو ہموار کیا تھا گو کہ خان صاحب کی 22 سالہ جد و جہد کا نچوڑ ”بول کے لب آزاد ہیں تیرے “ تھا اور تحریک انصاف کے قائدین یہی بیان داغا کرتے تھے ” پی ٹی آئی اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی ،آئینی اور جمہوری حق پر مکمل یقین رکھتی ہے“پھر یکا یک ٹیم کی مسلسل ناکامیوں اور معاشی زوال نے کارکردگیوں کی قلعی کھولی تو عوام الناس نے بھی سوشل میڈیا پر دل کی بھڑاس نکالنا شروع کر دی ہے اور سوشل میڈیا کی طاقت سے پی ٹی آئی بخوبی آگاہ ہے اسی لیے مختلف حیلے بہانوں سے سوشل میڈیاپر قد غن لگوانے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت آزادی اظہار رائے کے لیے ایسے اصول بنائے جن میں ریاستی اداروں کیخلاف ناجائز اور نامناسب بولنے والوں کو کٹہرے میں لا یا جائے پھر وہ کوئی بھی ہو اور حق کہنے والوں کے جان و مال اور روزگار کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے یقینا لکھاری کا قلم سر قلم کرنے کے لیے نہیں ہوتا لہذا لکھاری بھی مکالمے کو مناظرہ مت بنائیں جیسا کہ سقراط نے کہا تھا کہ” میں کسی کو کچھ نہیں سکھا سکتا بس لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہوں “ تو ایک لکھاری یہی کرتا ہے اورجو قلم قوم کو شعور اورتعمیری سوچ کو فروغ نہ دے سکے اس میں ابن الوقتی کی سیاہی ہوتی ہے جو کہ تاریخی ابواب کو سیاہ کر دیتی ہے لہذا حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ سچ کا گلہ گھونٹنے کی سوچ ترک کر دیں اور کوئی کام تو ایسا کرجائیں جو ان کے منشور کا حصہ تھا ۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.