کوئی ایسا کام کر جائیں ۔۔

بدھ 5 اگست 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

جدید جمہوری ریاستوں میں اظہار رائے کی آزاد ی کو شہریوں کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے مکالمے کو فروغ ملتا ہے صحت مند مکالمے سے شعور کو تحریک ملتی ہے جوتنقید پر اکساتی ہے جس کی روشنی میں ارباب اختیار کو اپنی کوتاہیاں دور کرنے اور عوامی فلاح و بہبود کیلیے درست راہیں متعین کرنے کا موقع ملتا ہے جس سے معاشرتی خوشحالی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں لیکن جب قلب و ذہن پر حکمرانی کا نشہ چھاجائے تو تعمیری سوچ کو پنپنے سے روکنے کے لیے جبر کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں ،فرمان جاری ہوتے ہیں اور مکالمے کو فروغ دینے والوں کو نہ صرف زہر کاپیالہ پینا پڑتا ہے بلکہ مکالمے کو مناظرہ بنا کر ایسے افراد پرزمین تنگ کر دی جاتی ہے جس سے معاشرے مادی طور پر پس ماندہ رہ جاتے ہیں اور اس کی واضح مثال ہمارا وطن پاکستان ہے جسے آزاد ہوئے ستر دھائیاں ہو چکی ہیں مگر آج بھی ہم ذہنی و مالی غلام ہیں جبکہ چین جو ہمارے بعد آزاد ہوا سپر پاوربننے جا رہا ہے
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غیر شائستہ اور توہین آمیز رویہ کسی کوبھی پسند نہیں ہوتا مگر زہر ہلاہل کو قند کہنے والے کتنے حق گو باقی رہ گئے ہیں اب مولانا ظفر علی خان جیسے صحافی نہیں رہے جنھوں نے اقتدار فرنگی کو اپنی قلمی تلوار سے کاری ضربیں لگائیں اور ہلا کر رکھ دیااب تو بیشتر لکھاریوں نے الفاظ کی جگالی کو ہی اظہار رائے کی آزادی سمجھ لیا ہے بعض تو خود کو ایسا پہلوان ظاہر کرتے ہیں جو حق و باطل کے معرکے میں تن تنہا ہی لڑ رہا اور معاشرتی بد صورتیوں اور ریاستی اداروں کی کوتاہیوں پر نوحے لکھ رہا ہوتاہے جبکہ پس پردہ ہر شخص بضد ہے کہ اس کا سچ ہی سچ ہے باقی سب جھوٹ ہے اور اس پر بس نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہے کہ اس سچ کی بنا پر اسے پوجا جائے ۔

(جاری ہے)

اکثر اینکرز اور تجزیہ نگاروں کا حال اس غائب دماغ پرو فیسر والا ہو چکا ہے جس نے اپنے شاگردوں کو ایک جانور کا دماغ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ افریقہ کے کالے گدھے کا دماغ ہے جو کہ اب نایاب ہوچکا ہے ،اس کی نسل دنیا سے مٹ چکی ہے اور اس طرح کہ اب صرف دو ہی دماغ ہیں ایک برطانیہ کے عجائب گھر میں ہے اور ایک آپ کے اس ٹیچر کے پاس ہے ۔ درحقیقت یہی مسئلہ ہے کہ سبھی خود کو حرف آخر سمجھتے ہیں کچھ میڈیا ریٹنگ کے چکر میں ایسے افراد کو کوریج زیادہ دیتا ہے جنھیں اپنی زبان اور رویوں پر قابو نہیں ہوتا بایں وجہ گالی اور گولی کا فرق مٹ چکا ہے اب تنقید برائے اصلاح نہیں رہی بلکہ تنقید برائے تنقید کو ہی دانشوری سمجھا جا رہاہے جس کے نتیجے میں عدم برداشت ،غیر شائستہ بیانیے اور تحکمانہ رویے سامنے آرہے ہیں جس میں کسی کو بھی معافی نہیں چلیں۔

۔ ہم مانتے ہیں کہ سیاست نفع بخش کاروبار بن چکی ہے اور ہر کوئی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کوشاں ہے مگر وہ ادارے جن کے روزو شب ملک و ملت کے لیے وقف ہیں جن کی اولادیں عزم لیکر پیدا ہوتی ہیں کہ وہ دھرتی ماں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت کا درجہ پائیں گے اور ان میں اکثریتی طور پر اپنے باپ کے لہو میں ڈوبی وردی کو چوم چوم کر بڑے ہوتے ہیں انھی پر قلم کے حربے آزمانا اور انھیں ملک و قوم کے مجرموں اور گنہ گاروں کی صف میں کھڑا کرنا کونسی بہادری اور کونسی اظہار رائے کی آزادی ہے یہاں مسئلہ آزادی اظہار کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے افسوس !کچھ لکھاریوں نے مال و زر کی ہوس میں نہ صرف جانبدارانہ رویہ اختیار کیابلکہ ببانگ دہل اس کا اقرار کر کے دلکش عہدے بھی پائے پھر بھی وہ صحافی ہی کہلائے ایسے میں آزادی اظہار رائے کا ناجائز استعمال ہوا جس سے عوامی اور ملکی سطح پر خفت کا سامنا کرنا پڑا جس سے حق لکھنے اور بولنے والوں کا نہ صرف وقار مجروع ہوا بلکہ انھیں مشکلات سے بھی گزرنا پڑا جو کہ قابل مذمت ہے جبکہ حکومت کو اپنے ذرائع سے علم ہے کہ کون جانبدار اور کون غیر جانبدار ہے پھر بھی عتاب کا شکار کمزور کیوں ہوتا ہے جبکہ طاقتور صریحاًہر پلیٹ فارم پر بولتا ہے مگر اسے کچھ نہیں کہا جاتا یہی دو عملی لمحہ فکریہ ہے اور باغیانہ رویوں کی وجہ بن رہی ہے
اگرچہ سوشل میڈیا کو پوری دنیا میں اظہار رائے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے چونکہ ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں عوامی مسائل بہتر انداز میں اجاگر ہوجاتے ہیں لیکن آج کل حکومتی ایوانوں میں اسے خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کیونکہ ہر وہ کام جو ذاتی مفادات اور اسلامی نظریات کے منافی کرنیکی کوشش کی جاتی ہے اس کے خلاف سوشل میڈیا پرمکالمے کا آغاز ہو جاتا ہے با لآخر حکومت کو یو ٹرن لینا پڑجاتا ہے جو کہ نا قابل برداشت ہو چکا ہے المیہ یہ ہے کہ مجوزہ کاروائی بھی وزیراعظم کے منشور کے خلاف ہے چونکہ ماضی کے حکومتی ادوار میں خوشامدی لکھاریوں کا بول بالا تھا اور حق لکھنے والے اکثر زیر عتاب رہتے تھے توخان صاحب نے اس کے خلا ف آواز اٹھائی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی عوامی رائے کو ہموار کیا تھا گو کہ خان صاحب کی 22 سالہ جد و جہد کا نچوڑ ”بول کے لب آزاد ہیں تیرے “ تھا اور تحریک انصاف کے قائدین یہی بیان داغا کرتے تھے ” پی ٹی آئی اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی ،آئینی اور جمہوری حق پر مکمل یقین رکھتی ہے“پھر یکا یک ٹیم کی مسلسل ناکامیوں اور معاشی زوال نے کارکردگیوں کی قلعی کھولی تو عوام الناس نے بھی سوشل میڈیا پر دل کی بھڑاس نکالنا شروع کر دی ہے اور سوشل میڈیا کی طاقت سے پی ٹی آئی بخوبی آگاہ ہے اسی لیے مختلف حیلے بہانوں سے سوشل میڈیاپر قد غن لگوانے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت آزادی اظہار رائے کے لیے ایسے اصول بنائے جن میں ریاستی اداروں کیخلاف ناجائز اور نامناسب بولنے والوں کو کٹہرے میں لا یا جائے پھر وہ کوئی بھی ہو اور حق کہنے والوں کے جان و مال اور روزگار کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے یقینا لکھاری کا قلم سر قلم کرنے کے لیے نہیں ہوتا لہذا لکھاری بھی مکالمے کو مناظرہ مت بنائیں جیسا کہ سقراط نے کہا تھا کہ” میں کسی کو کچھ نہیں سکھا سکتا بس لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہوں “ تو ایک لکھاری یہی کرتا ہے اورجو قلم قوم کو شعور اورتعمیری سوچ کو فروغ نہ دے سکے اس میں ابن الوقتی کی سیاہی ہوتی ہے جو کہ تاریخی ابواب کو سیاہ کر دیتی ہے لہذا حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ سچ کا گلہ گھونٹنے کی سوچ ترک کر دیں اور کوئی کام تو ایسا کرجائیں جو ان کے منشور کا حصہ تھا ۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :