کہاں تک سنوگے ،کہاں تک سناؤں

منگل 18 مئی 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

 یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عید پر ہی نہیں بلکہ ماہ مقدس کے دوران بھی بعض سیاسی مفتی حضرات تک نے چاند دیکھنے کی بجائے کوئی نیا چاند چڑھانے کی بھرپور کوششیں کی ہیں مگر اللہ پاک نے ان کی عصیاں کاریوں کو اپنے دامان رحمت میں لیکر انھیں مزید رسوائیوں اور بد حواسیوں سے بچا لیا ہے الگ یہ بات کہ وہ عادی مجرموں کی طرح حق اور سچ میں فرق محسوس کرنے کی سعادتیں حاصل کرنے میں مسلسل ناکام رہے اور نئے سے نیا فتویٰ اور دین محمدی میں نئے سے نئے انداز میں کوئی نہ کوئی بدعت قبیح کو جائز اور حلال قرار دینے میں ڈٹے رہے ” جب اتار لی منہ سے لوئی تو کیا کرے گا کوئی “کے مصداق بیان در بیان داغ کر عوام الناس کے جذبات سے کھیلتے رہے حتی کہ انھی نام نہاد مفتی حضرات نے خواجہ سراؤں تک کی شخصیت پر بھی اسلام سے متنازع فتویٰ داغنے میں قباحت محسوس نہیں کی مگر یاد رہے خواجہ سراؤں بارے نت نئے فتوی داغنے کی روایت پرانی ہے جس کی پریکٹس 2016 میں شروع ہوئی اور تبھی سے ایسے مفتیان کا بول بالا ہوا اور اب تو ایسی ایسی چیزیں بیان کی جاتی ہیں کہ دنیا بھی حیران ہے کہ ہم کس دین کے پیروکار ہیں حتی کہ رمضان ٹرانسمیشنز میں انھی اینکرنما مذہبی مولویوں نے اسلامی تہذیب و ثقافت اور اخلاقیات تک کی اہمیت اور اس کے عناصر کی تراکیب کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مجبوری بنا کر دین اسلام کی اصل روح سے مسلمانوں کو بھٹکانے کی ناکام کوشش کی ہے یہاں تک کہنا پڑے گا کہ ہر وہ شخص جو تفریح اور فنکاری کا بے نام فنکار بھی تھا وہ بھی اس ماہ مقدس میں ہر مرد و زن اور پاکستان کے باسیوں کو دین اسلام سکھانے میں مصروف رہا اور قرآن و رسول مقبولکے مسلمہ فرامین کو پس پشت ڈال کر ان کی کلیدی اہمیت کو نظر انداز کر کے اس پر بند گان خدا کی روایات و حکایات کو فوقیت دی اوراپنے محدود دینی علم کو افضل جان کر اصل اسلامی تعلیمات کو کافی اورروشن خیالی نہ جاناحتی کہ بعض نے تو کچھ ایسا انداز اختیار کیے رکھا جس میں ایک خاص ایجنڈے کو زیادہ پرموٹ کیا پھر اس میں نصابی کتب کے مواد میں تبدیلی ہو یا انٹرٹینمنٹ کے ذریعے برین واشنگ ہو تقریباً ہر وہ حربہ استعمال کیا جا رہا ہے جو عوام الناس میں غصہ وعدم اعتماد کو فروغ دے ایسے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہبی منافرت کیوں بپا نہ ہو کہ اسلام ایک متنازع مذہب بنا یا جارہا ہے ۔

(جاری ہے)

نت نئے مسئلے ،فتوے اور فروعی قوانین بھی زیر بحث لائے جا رہے ہیں اسلامی مشاورتی کونسل کی جانب سے ،کبھی مفتیوں کی طرف سے اور کبھی بے شمار دینی سطحوں پرنا عاقبت اندیشوں کی طرف سے صبح و شام کی نشریات اور یوٹیوب چینلز میں لاکھوں روپوں کے معاوضوں کے عوض عوام الناس کا دل بہلانے ،اپنے اپنے چینلز کی ریٹنگ بڑھانے اورتوحید و رسالت کے اسلامی تقاضوں اور حد ود سے تجاوز کر کے اپنی اپنی ذات کو نمایاں حتی کہ خود کو مکمل طور پر عیاں کر نے کے لیے آتے ہیں ایسے میں اسمبلیوں ،سینٹ ،ہائیکورٹس ،سپریم کورٹس اور اسلامی نظریاتی کونسلیں کہاں ہیں ؟ان کو کس مقصد کے لیے قائم کیا گیا ہے؟ کیا روز محشر انھیں اللہ کی عدالت میں حاضر نہیں ہونا ہے؟ کیا ان کے مناصب سدا قائم رہنے والے ہیں یہ اللہ کے قرآن اور نبی کے طریقوں کے بر خلاف کھلم کھلا تعلیمات دینے والے مفتیوں ،دانشوروں اور تھنک ٹینکوں پر دین محمدی کی دھجیاں اڑانے والوں کو کیوں نہیں روکتے؟ اور اگر سارے کے سارے سورہے ہیں تو پیمرا کس مرض کی دوا ہے کیا پیمرا کا مقصد صرف حکومتی خواہشات کے مطابق حکومتی مخالفین کا بے جا استحصال کرنا رہ گیا ہے ؟ اس ملک میں شیعہ ،سنی ،دیوبند اور اہلحدیث مسالک کے تمام لوگ مقیم ہیں ایسے بے شمار پروگرامزاور ڈراموں نے مذہبی منافرت پھیلا کر ملک کی نظریاتی اساس کو ہلا کر رکھ دیا ہے یہ ملک جو دو قومی نظریہ پر قائم ہوا تھا اور تحریک پاکستان سے لیکر قیام پاکستان تک لاکھوں مشاہیر ،دانشوران ،مذہبی سکالرز ،اسلامی علما ء،مائیں ،بہنیں بیٹیاں اوربیٹے اسلام کے لیے کٹ گئے وہ سب قربانیاں رائیگاں جا رہی ہیں اور لگتا ہے کہ یہ ملک اب یقینا مفاد پرست اور نا اہل افراد کے رحم و کرم پر ہے تقدیر نے یوم الدین کو یوم حشر ثابت کرنے کے لیے ان سروں پر دستاریں رکھ دی ہیں جو کہ اس کے قابل ہی نہ تھے یہ سب پارٹیاں ،ڈرامے اور افسانے ہیں اور ان کا اصل مقصدحصول اقتدار ہے وہ پلیٹ میں دیا جائے یا راہوں اور چوراہوں میں رسوا ہو کر چھینا جائے مگر یہ نوشتہ دیوار ہے کہ کاغذ کی ناؤ ہمیشہ نہیں چلتی اور یہ طے ہے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جس دن کا وعدہ ہے کہ
جب تاج اچھالے جائیں گے ،سب تخت گرائیں جائیں گے ،بس نام رہے گا اللہ کا ،اٹھے گا انا الحق کا نعرہ اور راج کرے گی خلق خدا ،لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
 موجودہ حالات میں تمام متعلقہ اداروں اور حکومتی عہدے داران کا فرض بنتا ہے کہ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے جو حضرت محمد کے ذریعے امت اسلامیہ کو دیا گیا ہے لہذا اسلام اللہ کی وحی ”قرآن پاک “اور اس کے پاک نبی کے طریقوں محمد رسول اللہ کی احادیث اور سنتوں کا نام ہے اگر ایک واضح اور اٹل حکم اللہ کے قرآن میں یا فرمان رسول میں موجود ہے تو اولاًیا حتمی طور پر اس کا ذکر آنا لازم ہے مگر جہاں قرآن و حدیث خاموش ہیں وہاں اصحاب رسول ،نبی کے قرابت داروں کی بات ہونی چاہیئے نہ کہ اسلام کو صرف مفتیوں کی اجارہ داریوں تک محدود کر دیا جائے ان مفتیوں اور مولوی نما اینکروں کا بس چلے تو یہ قرآن کے بے شمار احکام کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مدنطر رکھ کر تبدیل کرنے کی بھر پور سعی کریں کیونکہ انھوں نے دین کو پیٹ کا دھندا بنا لیا ہے اور یوٹیوب چینل کو چلانے کے لیے بلا خوف و خطر ہر قسم کا ہتھکنڈہ استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ انھیں با قاعدہ سیاسی سپورٹ حاصل ہے اور ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں کہ جیسا ہم چاہتے ہیں اس کو حلال قرار دینے کی کوئی صورت نکالیں حالانکہ یہی وہ حضرات ہیں جو تعویز گنڈے ،جن نکالنے ،جادو ،سایہ ،بے اولادی کا علاج جیسے کام کرتے ہیں اور لوگوں کو وسوسوں اور ہلاکتوں میں ڈالتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے ۔۔۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :