
معاشرے کا پڑھا لکھا فرد
جمعہ 12 اپریل 2019

سعد افتخار
(جاری ہے)
اللہ نہ کرے اگر مریض نازک حالت میں ہے اور ایڈمٹ ہونا پڑے تو پھر لاگ بھی دو گنا ہو جاتے ہیں ۔روزانہ کی بنیاد پر 500وارڈ فیس اور اگر پرائیویٹ وارڈ چاہیئے تو 1000روپے،ڈاکٹر صاحب کے راؤنڈ کے فیس بھی 500اور نرس کی فیس #بھی 500،اس کے علاوہ اگر سردیاں ہیں تو 500ہیٹر فیس اور اگر گرمیاں ہیں تو 500اے ۔سی فیس ۔
ہوتا یہ ہے کہ ایک میڈیکل کمپنی ڈاکٹر صاحب کو 15%دے رہی ہوتی ہے ، مطلب کے آپ ہماری پروڈکٹ سیل کرو ہم آپ کو 15%منافع دیں گے ،ایک دوسری کمپنی پندرہ کی بجائے 25%آفر کے دیتی ہے ،اب ڈاکٹر صاحب کی مجبوری ہے کہ پندرہ والے کو چھوڑ کر پچیس سے دوائیاں لینا پڑیں گی ،کرتے کرتے کمپنیاں اپنی سیل بڑھانے کیلئے 50%بھی دینے لگتی ہیں ۔اب یہاں پر بات سمجھنے والی ہے کہ جو کمپنی صرف ڈاکٹر صاحب کو پچاس فیصد دے رہی ہے وہ بے چارے مریض کو کیا دے رہی ہوگی ؟؟؟کیا معیار ہوگا دوائیوں کا ؟؟؟ ناقص ترین ادویات کا استعمال ہوتا ہے جس سے بچے کا ملیریا تو ٹھیک ہو جائے گا لیکن اگلی ساری عمر وہ بلڈپریشر ،شوگر اور ہیپاٹائیٹس جیسے موذی مرض سے پنجہ آزمائی کرتا رہے گا ۔
اور دوسری طرف سرکاری ہسپتال ہیں ، جو انسانوں کے کم اور جانوروں کے زیادہ لگتے ہیں ۔ہسپتال کے گراؤنڈ میں گائیں بھینسیں چر رہی ہوتی ہیں ،وارڈز میں بلیوں اور کتوں کا بسیرا ہوتا ہے اور گندگی اس قدر کہ کوئی صحت مند بھی جا کر بیمار ہو جائے ۔ڈاکٹر صاحب صبح آٹھ بجے آتے ہیں حاضری لگا کر ایک آدھ گھنٹہ بیٹھنے کے بعد یاد آتا ہے کہ آج تو بیگم صاحبہ نے فلاں کام کرنے کو کہا تھا ضروری کام کا بہانہ لگا کر سارا دن غیرحاضری میں گزار دیتے ہیں یا پھر پرائیویٹ کلینک پر کوئی ایمرجنسی نپٹا رہے ہوتے ہیں اور پیچھے مریضوں کو کہہ دیا جاتا ہے ڈاکٹر صاحب سرکاری میٹنگ میں ہیں ۔ اگر کوئی مریض خوش قسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں آنے تک کامیاب ہو جاتا ہے تو چیک اپ کے بعد جو دوا لکھ کر دی جاتی ہے وہ دوا پچھلے دو ہفتے سے ہسپتال کے سٹورپر آوٹ آف سٹاک ہو تی ہے ، سرکاری ہسپتال کہ میڈیکل سٹور پر گنتی کہ چھ سیرپ پڑے ہوتے ہیں اس لئے مریض بے چارے کو پھر بھی پرائیویٹ سٹور کا خرچ برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک محاورہ مشہور ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ۔، لہذا سارے ڈاکٹر ایک جیسے نہیں ہوتے کچھ بڑی ایماندری سے اپنے پروفیشن کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ،لیکن اکثر کی حالت پیسے کمانے والی مشین جیسی ہی ہے، جیساکہ میں وضاحت کر چکا ہوں ۔
تو یہ تھا جی ہمارے معاشر ے میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا مانے جانے والے صاحب ،جو ڈاکٹر کا لباس پہنے بھڑیا بنا بیٹھا ہے،نہ خیال کرتا ہے کسی غریب کا اور نہ ہی خیال کرتا ہے کسی بڑے چھوٹے کا ،بلکہ ہر قسم کے امتیازات سے بالا ترہو کر عوام کی صحت کا نقصان بھی کرتا ہے اور ان کے کمائی کی بھی ۔ جہاں ان لوگون کو اتنے سال میڈیکل کی تعلیم دی جاتی ہے وہاں ایک سال انھیں صرف اخلاقیات پڑھائی جائے تو شاید کچھ حاصل ہو ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سعد افتخار کے کالمز
-
دیوسائی
جمعرات 10 فروری 2022
-
کھانے پر بد نظمی
جمعرات 23 ستمبر 2021
-
بیساکھی کا میلہ کہاں کریں گے،جلیانوالہ باغ کریں گے
منگل 13 اپریل 2021
-
کہیں کھو گیا تو پہاڑوں میں رہ لوں گا
منگل 9 فروری 2021
-
تمسخرِدین کی بڑی وجہ انتہاء پسندی۔قسط 5
پیر 25 جنوری 2021
-
تمسخرِدین کی بڑی وجہ انتہاء پسندی۔قسط 4
منگل 12 جنوری 2021
-
تمسخرِدین کی بڑی وجہ انتہاء پسندی۔قسط 3
جمعہ 18 دسمبر 2020
-
تمسخر دین کی بڑی وجہ انتہاء پسندی ۔قسط نمبر 2
ہفتہ 5 دسمبر 2020
سعد افتخار کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.