معاشرے کا پڑھا لکھا فرد

جمعہ 12 اپریل 2019

Saad Iftikhar

سعد افتخار

علم حاصل کرنے کے دو مقاصد ہوتے ہیں ۔پہلا یہ کہ بندہ علم حاصل کر کے ایک اچھاشہری بن کر معاشرے کی خدمت کر سکے،دوسرا یہ کہ علم حاصل کر کہ خدا کی پہچان کی جا سکے ۔علم نام ہے اچھے اخلاق کا ،اچھی تہذیب کا ۔لیکن ہمارے معاشرے میں جو جتنا زیادہ اہل علم ہو گا وہ اس قدر ہی بد اخلاق ،غیر مہذب اور ملک قوم کی خدمت کرنے کی بجائے ایک بھڑیا بن کر معاشرے کے افراد کو کھائے جا رہا ہے ۔

ایک ناقص خیال کے مطابق ہمارے معاشرے میں جس شخص کو سب سے زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے وہ ڈاکٹر ہے سمجھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر مسیحا بن کر قوم کی خدمت کر رہا ہے،تو آئیے ذرا دیکھتے ہیں ڈاکٹر صاحب کی نیک نامی ، رحم دلی ،اچھے اخلاق کو ایک دیہاڑی دار مزدور کے بچے کو بخار ہوجاتا ہے پیسے نہ ہو نے کے سبب پہلے تو دیسی ٹوٹکوں سے گزارا کرتا ہے لیکن جب بخار جان چھوڑنے کا نام نہیں لیتاتو محلے کے منشی صاحب سے کچھ روپے ادھار لے کر شہر کے ڈاکٹر صاحب کے کلینک پہنچتا ہے کچھ گھنٹے انتظار کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ رسیپشن پر 500کی بجائے 1000دیں تو نمبر ملتاہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر صاحب بچے کا چیک اپ کرتے ہیں بیماری کی تشخیص نہ ہونے کے سبب 4لیبارٹری ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں ،بیماری کی تشخیص بھلے ایک ٹیسٹ سے ہی کیوں نہ ہو مگر چار ٹیسٹ تو لازمی کرواناپڑتے ہیں ،وہ اس لئے کے لیبارٹری سینٹر سے 50%ڈاکٹر صاحب کو ملتے ہیں اس لئے ٹیسٹ جتنے زیادہ ڈاکٹر صاحب کی جیب اتنی ہی گرم ،1000روپے لیبارٹری والے کو دینے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ بچے کو تو ملیریا ہے ،دوا لکھ کردی جاتی ہے ،اب حاضری ہے میڈیکل سٹور اور میڈیکل سٹور سے بھی ڈاکٹر صاحب کو 50%ملتا ہے اس لئے چار کی بجائے چھ سیرپ لکھ دئیے3000میڈیکل سٹور پر بل بنتا ہے ،یوں بے چارہ غریب قسمت کا مارا ایک پیشی میں ہی 5000ڈاکٹر کے کلینک پر چڑھاوا چڑھا آتا ہے ،اس امید کیساتھ کہ پندرہ دن کی دوائی کھانے کے بعد ایک پیشی اور بھگتنا ہے ،اس طرح غریب میاں اگلے دو ماہ اپنا پیٹ کاٹ کر منشی صاحب کا قرض اتارنے میں لگا رہتا ہے۔


اللہ نہ کرے اگر مریض نازک حالت میں ہے اور ایڈمٹ ہونا پڑے تو پھر لاگ بھی دو گنا ہو جاتے ہیں ۔روزانہ کی بنیاد پر 500وارڈ فیس اور اگر پرائیویٹ وارڈ چاہیئے تو 1000روپے،ڈاکٹر صاحب کے راؤنڈ کے فیس بھی 500اور نرس کی فیس #بھی 500،اس کے علاوہ اگر سردیاں ہیں تو 500ہیٹر فیس اور اگر گرمیاں ہیں تو 500اے ۔سی فیس ۔
ہوتا یہ ہے کہ ایک میڈیکل کمپنی ڈاکٹر صاحب کو 15%دے رہی ہوتی ہے ، مطلب کے آپ ہماری پروڈکٹ سیل کرو ہم آپ کو 15%منافع دیں گے ،ایک دوسری کمپنی پندرہ کی بجائے 25%آفر کے دیتی ہے ،اب ڈاکٹر صاحب کی مجبوری ہے کہ پندرہ والے کو چھوڑ کر پچیس سے دوائیاں لینا پڑیں گی ،کرتے کرتے کمپنیاں اپنی سیل بڑھانے کیلئے 50%بھی دینے لگتی ہیں ۔

اب یہاں پر بات سمجھنے والی ہے کہ جو کمپنی صرف ڈاکٹر صاحب کو پچاس فیصد دے رہی ہے وہ بے چارے مریض کو کیا دے رہی ہوگی ؟؟؟کیا معیار ہوگا دوائیوں کا ؟؟؟ ناقص ترین ادویات کا استعمال ہوتا ہے جس سے بچے کا ملیریا تو ٹھیک ہو جائے گا لیکن اگلی ساری عمر وہ بلڈپریشر ،شوگر اور ہیپاٹائیٹس جیسے موذی مرض سے پنجہ آزمائی کرتا رہے گا ۔
اور دوسری طرف سرکاری ہسپتال ہیں ، جو انسانوں کے کم اور جانوروں کے زیادہ لگتے ہیں ۔

ہسپتال کے گراؤنڈ میں گائیں بھینسیں چر رہی ہوتی ہیں ،وارڈز میں بلیوں اور کتوں کا بسیرا ہوتا ہے اور گندگی اس قدر کہ کوئی صحت مند بھی جا کر بیمار ہو جائے ۔ڈاکٹر صاحب صبح آٹھ بجے آتے ہیں حاضری لگا کر ایک آدھ گھنٹہ بیٹھنے کے بعد یاد آتا ہے کہ آج تو بیگم صاحبہ نے فلاں کام کرنے کو کہا تھا ضروری کام کا بہانہ لگا کر سارا دن غیرحاضری میں گزار دیتے ہیں یا پھر پرائیویٹ کلینک پر کوئی ایمرجنسی نپٹا رہے ہوتے ہیں اور پیچھے مریضوں کو کہہ دیا جاتا ہے ڈاکٹر صاحب سرکاری میٹنگ میں ہیں ۔

اگر کوئی مریض خوش قسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں آنے تک کامیاب ہو جاتا ہے تو چیک اپ کے بعد جو دوا لکھ کر دی جاتی ہے وہ دوا پچھلے دو ہفتے سے ہسپتال کے سٹورپر آوٹ آف سٹاک ہو تی ہے ، سرکاری ہسپتال کہ میڈیکل سٹور پر گنتی کہ چھ سیرپ پڑے ہوتے ہیں اس لئے مریض بے چارے کو پھر بھی پرائیویٹ سٹور کا خرچ برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک محاورہ مشہور ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ۔

، لہذا سارے ڈاکٹر ایک جیسے نہیں ہوتے کچھ بڑی ایماندری سے اپنے پروفیشن کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ،لیکن اکثر کی حالت پیسے کمانے والی مشین جیسی ہی ہے، جیساکہ میں وضاحت کر چکا ہوں ۔
تو یہ تھا جی ہمارے معاشر ے میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا مانے جانے والے صاحب ،جو ڈاکٹر کا لباس پہنے بھڑیا بنا بیٹھا ہے،نہ خیال کرتا ہے کسی غریب کا اور نہ ہی خیال کرتا ہے کسی بڑے چھوٹے کا ،بلکہ ہر قسم کے امتیازات سے بالا ترہو کر عوام کی صحت کا نقصان بھی کرتا ہے اور ان کے کمائی کی بھی ۔ جہاں ان لوگون کو اتنے سال میڈیکل کی تعلیم دی جاتی ہے وہاں ایک سال انھیں صرف اخلاقیات پڑھائی جائے تو شاید کچھ حاصل ہو ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :