امریکہ اسرائیل کا سرپرست

بدھ 10 اپریل 2019

Sabir Abu Maryam

صابر ابو مریم

فلسطین پر قائم ہونے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو قیام سے ہی برطانوی استعمار سمیت امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے ۔امریکہ نے ہمیشہ ہی اسرائیل کی سیکورٹی کا بہانہ بنا کر خطے پر اپنا تسلط قائم کرنے کی متعدد کوششیں کی ہیں ۔اسرائیل جو پہلے استعماری قوتوں کی ناجائز اولاد کے طور پر پیدا ہوا اب امریکہ کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا فن رکھتا ہے اور اس کام کو انجام دینے کے لے صہیونیوں کی لابی پہلے ہی امریکہ میں پنجہ گاڑ چکی ہے جس کے باعث امریکی سیاست اب صہیونیوں کی مرہون منت رہ گئی ہے۔


فلسطین پر صہیونیوں کے ناجائز تسلط اور غاصبانہ قبضہ کے بعد سے ستر سال کی تاریخ میں فلسطینی عوام صہیونیوں کے مظالم کا نشانہ بنتی آ رہی ہے۔

(جاری ہے)

فلسطینیوں کو صرف اپنی زندگیوں سے ہی ہاتھ نہیں دھونا پڑا ہے بلکہ اپنے گھروں، اپنے کھیتوں ، باغات، حتیٰ زندگی سے متعلق تمام معاملات سے محروم کئے جا رہے ہیں۔انسانی حقوق کی بڑی بڑی تنظیمیں یوں تو حقوق کی بات کرتے نہیں تھکتی ہیں لیکن فلسطین کے معاملے میں کوئی بھی عالمی ادارہ اور کوئی بھی انسانی حقوق کی تنظیم اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے باز نہیں رکھ سکی ۔

امریکہ جو خود امن کا راگ الاپتا ہے سالانہ بنیادوں پر اربوں ڈالرز کا اسلحہ اسرائیل کو امداد کے نام پر دے رہا ہے اور اس یہ تمام اسلحہ فلسطینیوں پر تجربات کے طور پر استعمال ہو رہاہے۔
اس لئے ہم کہتے ہیں کہ امریکہ نہ صرف دنیا میں دہشت گردی کا بانی ہے بلکہ فلسطین میں ہونے والے ہزاروں انسانوں کے قتل عام میں اسرائیل کا برابر شریک جرم ہے کیونکہ اسرائیل کو امریکی سرپرستی حاصل ہے۔


اقوام متحدہ میں جب بھی فلسطینیوں کے حقوق کی بات ہو تو امریکہ سب سے پہلے اس معاملہ پر اپنا ویٹو کا حق استعمال کر کے فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق کو زندہ ہونے سے پہلے ہی دفن کرنے کی گھناؤنی کوشش کرتا ہے۔موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ تو ایک درجہ کے احمق شما ر ہوئے ہیں کیونکہ دور صدارت میں آنے کے بعد انہوں نے ایسے فیصلہ جات صادر رکنا شروع کر دئیے ہیں کہ جس سے دنیا میں ایک بھونچال کی کیفیت پید اہو رہی ہے۔

کبھی وہ امریکی سیاہ فاموں کے خلاف بیانات صادر کرتے ہیں تو کبھی میکسیکو کا راستہ بند کرنے کیلئے نسلی امتیاز پر مبنی دیوار قائم کرنے کے احکامات جاری کر دیتے ہیں۔اسی طرح بچوں کو ان کے والدین سے علیٰحدہ کرنے جیسے احکامات بھی امریکی موجود ہ صدر کے احمقانہ اقدامات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ان سب باتوں سے بڑھ کر امریکی صدر ٹرمپ نے گذشتہ برس میں فلسطین کے دارلحکومت کو ہی تبدیل کرنے کا یکطرفہ اعلان کر کے پوری دنیا کو حیرت مین مبتلا کر دیا۔

امریکہ کے اس نمبر ایک احمق نے فلسطین کے تاریخی شہر اور دارلحکومت ’’یروشلم‘‘ کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا ادارلحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے نکال کر یروشل منتقل کر دیا ۔امریکی صدر کے اس اعلان پر پوری دنیا نے مذمت کی اور اقوام متحدہ نے اس فیصلہ کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ۔


دراصل امریکی صدر ٹرمپ کے فلسطین سے متعلق یک طرف احکامات واعلانات صرف اور صرف صہیونیوں کی خوشنودی کی خاطر ہیں تا کہ امریکہ میں موجو د صہیونی لابی ٹرمپ کو اپنی شاباش جاری رکھے اور شاید ٹرمپ کے مطابق وہ آئندہ انتخابات میں دوبارہ امریکہ کے صدر بن جائیں۔
بہر حال مسئلہ فلسطین سے متعلق اگر ستر سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں تو شفاف طور پر نظر�آتا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرستی جاری رکھی ہے ۔

چاہے حکمران کوئی بھی ہوں امریکہ نے صہیونی لابی کی سیاسی حکمت عملیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کسی بھی قانون اور بین الاقوامی اداروں کی عزت کا پاس نہیں رکھا ہے۔بلکہ ہمیشہ عالمی و انسانی قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔
چاہے اسرائیل کا فلسطین پر ناجائز قیام کا معاملہ ہو یا پھر اسرائیل کی دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام، غارت گری، فلسطینیوں کو جلا وطن کرنا ، عرب ممالک پر اسرائیلی جنگوں کا مسلط کرنا، فلسطینیوں کے علاقوں میں اسرائیلی وحشیانہ حملوں کا سلسلہ، یاپھر لبنان میں صابر و شاتیلا کے کیمپوں میں صہیونی افواج کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام، لبنان پر صہیونیوں کا قبضہ کرنا، شام کی گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ، اور اسی طرح سنہ 2006ء میں لبنان پر جنگ مسلط کرنے سمیت غزہ کے علاقے میں متعدد جنگوں کا مسلط کرنے جیسے واقعات ہوں ، ان تمام کے تمام معاملات اور واقعات میں امریکہ کی سرپرستی ہمیشہ اسرائیل کو حاصل رہی ہے کیونکہ جب اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر ، ان پر گولہ بارود کی بارش کر کے قتل عام کرتا ہے تو یہی امریکہ ہے جو بین الاقوامی فورمز پر اسرائیل کا دفاع کرتا ہے اور حد یہ ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم سے اپنا دفاع کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔

لہذٰا دنیا واضح طور پر مشاہدہ کررہی ہے کہ امریکی حکومت دنیا کی بدنام ترین حکومت ہے کہ جو دنیا کے تمام ممالک میں دخل اندازی کر کے نہ صرف ان ممالک کے وسائل کو ہڑپنے میں مصروف عمل ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو عرب ممالک کے وسائل پر قابض کرنے کے لئے ایک پولیس مین کی حیثیت دے رکھی ہے اور اسرائیل کو اس کھلی چھٹی کے ساتھ اختیار دئیے گئے ہیں کہ چاہے فلسطینیوں کا قتل عام ہو یا لبنان میں صہیونیوں کے ہاتھوں قتل عام ہو، یا پھراسرائیل شام پر فضائی حملوں میں قتل و غارت کرے ، یا اس سے بڑھ کراسرائیل جو چاہے کرے۔


خلاصہ یہ ہے کہ امریکی حکمرانوں کی تاریخ بد ترین اور سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے اور ان سیاہ کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ امریکی حکمرانوں کا فلسطین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قیام کے لئے مدد کرنا اور فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کو جائز قرار دیتے ہوئے فلسطینی مظلوموں کا قتل عام کرنے کا امریکی لائسنس اسرائیل کو دینا۔

یہاں افسو س کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ دنیاکی چند ایک مسلمان و عرب ریاستوں کے حکمرانوں نے بھی امریکہ کے نمبر ون احمق ٹرمپ کے ہاتھوں میں اپنی عزت و حمیت کا سودا رکھ دیا ہے جسے امریکی صدر نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ فروخت کر دیا ہے۔یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے اور آنے والی نئی نسلیں اس بات کو درک کرر ہی ہیں کہ امریکہ کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے اسی طرح رنگین ہیں جس طرح صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگیں ہیں ۔

نسل نو اب نئے عزم کے ساتھ ان تمام کٹھن حالات میں امریکہ و اسرائیل کا مقابلہ کر رہی ہے اور اس کا نمونہ ہمیں آج بھی فلسطین میں امریکی ساختہ ٹینکوں کے سامنے ہاتھوں میں پتھر لئے نوجوان اور بچے مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں جو اس امید کے ساتھ مزاحمت کر رہے ہیں کہ عنقریب وہ دن آنا ہے کہ جب فلسطین پر صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کی نابودی ہونی ہے تاہم آنے والی تاریخ کبھی امریکی حکمرانوں کواسرائیل کی سرپرستی کرنے اور فلسطینیوں کے قتل عام کا لائسنس دینے پر معاف نہیں کرے گی۔امریکی سیاست کے ماتھے پر یہ سیاہ دھبہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :