
مبشر لقمان اور اسرائیل کی عظیم قوم
منگل 24 نومبر 2020

صابر ابو مریم
(جاری ہے)
مبشر لقمان نے اسرائیل کی قوم کو ایک عظیم قوم قرار دیتے ہوئے اسرائیلی نیوز چینل پر گفتگو کو جاری رکھا ۔
اب بات کرتے ہیں اسی انٹر ویو میں پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات سے متعلق بات کی ۔ جیسا کہ مبشر لقمان نے اس انٹرو یو میں یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ پاکستان اور اسرائیل باہم تعلقات قائم کر لیں اور ایک دوسرے سے ان کو سیکھنا چاہئیے تو یہاں بھی ذی شعور انسانوں کے لئے اور بالخصوص ہر اس پاکستانی کے لئے سوال پیدا ہوتے ہیں کہ جو قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا رہنما مانتا ہے ۔ مبشر لقمان نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسرائیلی نیوز چینل کو انٹر ویو دیا اور پھر اس انٹرویو میں ایسے سوالات کو اٹھا یا کہ جن کے ذریعہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی بحث کو جنم دیا جا سکے ۔ یہ سب کچھ انہوں نے ایسے وقت میں انجام دیا کہ جب دوسری طرف غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا وزیر اعظم سرزمین مقدس حجاز پر سعودی حکمرانوں سے ملاقات کر رہا تھا ۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ مبشر لقمان نے باقاعدہ طور پر حکومت پاکستان کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ بنتے ہوئے حکومت پاکستان کو دباءو کا شکار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ حکومت پاکستان پہلے ہی امریکہ اور عرب ممالک کے دباءو کا سامنا کر رہی ہے اور ا س بات کا اظہار خود وزیر اعظم پاکستان عمران خان کر چکے ہیں ۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اس تمام تر دباءو کے باجود بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا ۔
اب سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر کامران خان، غریدہ فاروقی اور مبشر لقمان کی طرح دیگر افراد مسلسل پاکستان اور اسرائیل کے تعلقا ت کے بارے میں بات کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین سید نے کامران خان کے ٹی وی شو میں ان کی اس سازش کو بہترین انداز سے ناکام بنایا ہے ۔
مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے جو مؤقف وزیراعظم عمران خان نے اپنایا ہے وہ پاکستان کا دیرینہ مؤقف ہے جس کا عرب لیگ یا او آئی سی سے کوئی تعلق نہیں ۔
اُن تمام صحافیوں اور دانشوروں کے لئے صرف یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ وہ پہلے قیام پاکستان کے مقاصد پڑھ لیں ۔ اسرائیل کے حوالے سے قائد اعظم محمدعلی جناں نے 1940 میں دو قراردادیں پیش کی تھیں جس میں ایک قرار داد پاکستان تھی دوسری قرارداد فلسطین تھی،پاکستان وہ واحد غیر عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کے خلاف دو جنگیں لڑی ہیں جس میں 1967 میں اردن کی جانب سے جبکہ دوسری 1973 میں شام کی طرف سے پاکستان تو اسرائیل کے خلاف اس حد تک گیا ہے جتنا کوئی دوسرا ملک نہیں گیا پاکستان کی فلسطین کے حوالے سے بڑی قربانیاں ہیں ہم اپنے دیرینہ مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔
ان تمام عناصر سے سوال ہے کہ بتائیے جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے ان کو کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں اور وہ فوائد پاکستان حاصل نہیں کر پایا ;238;مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اسی طرح ترکی کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے ۔ اب اگر متحدہ عرب امارات اور بحرین نے تسلیم کیا ہے تو وہ کون سے ایسے فوائد حاصل کر رہے ہیں کہ جو پاکستان کو حاصل نہیں ہیں ;238; ان تمام سوالات کے جواب شاید م،بشر لقمان اور کامران خان سمیت غریدہ فاروقی جیسے صحافیوں کے پاس موجود نہ ہوں گے ۔ کیونکہ انہوں نے اسرائیل کو ایک ایسی عینک سے دیکھنا شروع کیا ہے شاید کسی اور کے پاس دنیا میں موجود نہیں ہے اور شاید یہ شخصیات بانیان پاکستان سے زیدہ عقل و فہم اور فراست رکھتے ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کی عظیم قوم عالمی استعمار اور اس کے ایجنٹوں اور بالخصوص صہیونیوں کی پاکستان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقا ت کی خواہش کو کبھی پورا نہیں ہونے دیں گے ۔ چاہے ماضی کے حکمران ہوں یا موجودہ حکمران ہوں سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ دوستی اور تعلقات کا مطلب ہے کہ حکومت کا خاتمہ اور اقتدار سے علیحدگی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نابود ہو رہاہے اور ایسے حالات میں اسرائیل کو عرب دنیا کے کمزور سہارے زیادہ دیر تک آکسیجن فراہم نہیں کر سکیں گے ۔ اسرائیل ایک غاصب اور جعلی ریاست ہے جس کے ساتھ تعلقات بنانا پاکستان کے لئے کشمیر موقف سے دستبرداری پر انجام پذیر ہو گا ۔ جو موقف پاکستان کا مقبوضہ کشمیر پر ہے وہی موقف مقبوضہ فلسطین پر ہے اگر ہم فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرتے ہیں تو یہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے ۔ دونوں علاقوں کا مسئلہ ایک سا ہے ایک مشرقی وسطیٰ میں ہے تو دوسرا جنوبی ایشیا میں ، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مقصد ہے کہ پاکستان کشمیر پر اپنے درینہ موقف کو بھی خیر آباد کہہ دے اور یہ ہم کر نہیں سکتے یہ ہماری قومی پالیسی ہے فلسطین ہمارے لیئے بہت مقدس ہے تو کشمیر بھی ہمارے لیئے بہت اہم ہے ۔ ہ میں من حیث القوم ہر اس عنصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی جو پاکستان کی پالیسی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے مبشر لقمان جیسے انٹر ویو بیانات دیتا ہے ۔ ہ میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے اسرائیل نامنظور موقف کی حمایت جاری رکھنا ہو گی ۔ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
صابر ابو مریم کے کالمز
-
اسلام فوبیا کے مقابلہ میں دنیائے اسلام کا اتحاد ناگزیر
جمعرات 27 جنوری 2022
-
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم اصول جارحیت کی مذمت
جمعرات 30 دسمبر 2021
-
اسرائیل کے ساتھ دوستی اور امن کا خواب
اتوار 19 دسمبر 2021
-
اعلان بالفور اور فلسطینیوں پر مصیبت کے سو سال
منگل 2 نومبر 2021
-
انسانی حقوق اور مغرب کا دوہرا معیار
منگل 26 اکتوبر 2021
-
فلسطین کا مقدمہ اور اقوام عالم
منگل 28 ستمبر 2021
-
ہم پاکستانی ہیں۔پاکستان ہمارا ہے!
جمعرات 9 ستمبر 2021
-
ایران یا امریکہ: فاتح کون ہے؟
پیر 6 ستمبر 2021
صابر ابو مریم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.