”دوہرا معیار“

منگل 16 جون 2020

Sadia Ahmad Butt

سعدیہ احمد بٹ

ہمارے ملک میں اکثریت لوگ دوہرے معیار ثابت ہونے پر کسی کو معاف نہیں کرتے چاہے وہ کوئی بہت بڑی معتبر مذہبی یا سماجی شخصیت کیوں نہ ہو یا ریاستی ادارہ ۔جھٹ سے دوہرے معیار پر اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔آج کل کی صورتحال میں کرونا کی احتیاطی تدابیر کاخیال کسی حکومتی وزیر یا مشہور شخصیت کی جانب سے نہ رکھا جائے تو اس تنقید میں سب بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

گھر میں کام کاج کر کے اکتائی خاتونِ خانہ اگر کسی وزیر کو بغیرماسک پہنے ٹی وی پر دیکھ لے تو کچھ اس ہی طرح تیور چڑھائے دہرے طرز عمل پر لعن طعن کرتے ہوئے ملک کی ترقی کی راہ میں اس کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے یہ کہتی ہوئی نظر آئے گی۔ جیسے کے ایسے جملے آپ نے سنے ہونگے مثلاً ، ”ان کا اپنے لئے اور معاملہ ہے اور دوسرے کو کے لئیے کچھ اور جبھی یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا“ جبکہ گلی کے کونے پر چھوٹی سی پرچون کی دکان لگائے چچا یا دفتر میں بیٹھے بابو اسی طرح ہی منھ بنائے اپنے مستقل دو تین گاہکوں اور خوش گپیوں کے شوقین قاسداور کلرک کے سامنے فلسفیانہ انداز میں یہ ہی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

”! اب ان کا یہ حال ہے تو ہم کسی اور سے کیا توقع رکھیں صاحب ۔“
مگر صاحب کبھی کسی نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہ کی ہو گی۔ہم میں زیادہ تر لوگ دوہر امعیار رکھتے ہیں۔چلئیے ، عام پاکستانی متوسط گھرانے سے شروع کرتے ہیں ۔جہاں آج بھی لڑکوں کو ہر معاملہ میں زیادہ ترجیح دی جاتی ہیں کیونکہ مستقبل میں بیٹوں نے گھر کا سہارا جو بننا ہوتا ہے۔

وہ الگ بات ہے کہ اب بیٹے بیوی ملنے کے بعد الگ گھر کو رخصت ہو جاتے ہیں اور بیٹیاں جن کو پرایادہن کہا جاتا ہے وہی والدین کا اصل سہار ا بنتی ہیں۔الغرض اگر کمائی پوت اگر موبائل یا انٹرنیٹ کے زریعے درجنوں لڑکیوں سے موبائل یا انٹرنیٹ پر پیار کی پینگے بنانے کے بعد کسی ایک نیک پروین سے شادی کا خواہشمند ہو تو اس سے زیادہ تکرار نہیں کرتے مگر اگر لڑکی فقظ کسی رشتہ سے انکا ر کر دے تو اسکو کئی مہینے اپنے کردار کی صفائیاں دینے میں لگ جاتے ہیں۔

اس لاک ڈاؤن میں شدید گرمی میں بلا تعطل کام کرنے والی بہو اگر یہ کہہ دے”باورچی خانہ میں بہت گرمی ہوتی ہے“ ،تو ساس اس کو تسلی اور حوصلہ افزائی کہ دو بول کہنے کے بجائے ٹھنڈی مشین میں بیٹھے یہ کہتی ہے ،”بس کر جاؤ اب اتنی بھی گرمی نہیں ،تم کو کچھ زیادہ ہی لگ رہی ہے۔“ہاں اگر اپنی بیٹی سسرال میں اپنی زمہ داریاں نبھا کر تنگ آجا ئے تو فوراً سمدھن جی کو فون گھما کر احساس دلایا جاتا ہے کہ انکی بیٹی لاوارث نہیں۔

یہ بھی بہت سے گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ بہو بیٹی کی تو کوئی پرواہ نہیں پر سونے پر سہاگہ اپنی بیٹی کا احساس کرتے ہوئے اسے میکہ رہنے کے لئے بلا لیا جاتا ہے اور بہو کو جانا نہیں دیا جاتاکیونکہ شادی شدہ نند اور بچوں کی خدمت کون کرے گا ۔اوپر سے اگر بہو کے والدین وفات پاچکے تو اب جو سلوک کرنا ہے سو کرو کون پوچھنے والا ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہ بھی منافقت پر مبنی رویہ ہے کے پرائے کی بیوی،بہو ،بیٹی پر ہونے والی زیادتی کا احساس جلدی محسوس ہوتا ہے مگر گھر میں بیٹھے جو کچھ خود اپنے ان رشتوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اس کا رتی بھر بھی احساس نہیں ہوتا۔

خود اپنے آپ میں بہت بڑے کامل ولی بنے بیٹھے دوسروں کو گنہگار ثابت کرنے پر تلے لوگ خوف خدا کا درس دیتے دراصل زہر سے بھی زیادہ برے لگتے ہیں۔
 دوہرے معیار کی کہانی ایک صرف گھر تک محدود نہیں۔اگر آپ کا فون خراب ہوجائے یا بجلی گیس کا بل کا کوئی مسئلہ درپیش ہو اور آپ ایک عام شہری کی طرح شکایت کا اندراج کرائیں تو آپ کے مسئلہ پر ایک ہفتہ سے قبل توجہ نہیں دی جائے گی۔

البتہ کسی باثر شخصیت یا اعلیٰ سرکاری افسر کے لئے فوری طور پر کاروائی کرتے ہوئے تمام وسا ئل بروئے کار لاتے ہوئے انکی شکایت دور کی جائے گی۔کسی نجی محکمہ یا سرکاری دفتر اگر آپ مہران گاڑی یا موٹر بائک میں جائیں گے تو آپ کو لمبی قطارمیں لگنا پڑتا ہے ،مگر وہاں کے عملہ کا رویہ آپ سے یکسر مختلف ہوگا اگر آپ مہنگی گاڑی میں سوار ہو کر آئے توفوراً سے چائے کاآرڈر دیا جاتا ہے اورمٹھائی کے عوض جلدی کام کی بھی امید ہوتی ہے۔

باصورت دیگر بہت سارا وقت محکمہ جاتی کاروائی میں صرف ہوجاتا ہے۔
ہمارا میڈیا بھی دہرے معیار کا قائل ہے۔میڈیاکے نام نہاد ٹھیکیدار ویسے تو اظہاررائے کی آزادی کی ّآڑ میں بہت سے لوگوں کی پگڑی اچھالنے کو معیوب نہیں سمجھتے ۔یہی وجہ ہے کہ مولانا ظارق جمیل جیسی معتبر شخصیت اگر انکے سامنے میڈیا میں دکھائی جانے والی بے حیائی کی نشاندہی کر دے تو اخلاقی قدروں سے نا آشنا ایسے نام نہاد صحافی اپنی بکاؤ صحافت کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایسی شخصیت کو اپنی رائے دینے کی سزا ٹی وی پروگرام میں ذلیل کر کے دیتے ہیں۔

ایسے تضحیک اورذلت آمیز سوال داگنے سے یہ بہت بڑے صحافی ثابت ہوجاتے ہیں ساتھ میں ریٹنگ بھی آتی ہے۔
نیچے سے اوپر سطح تک دوہرے طرز عمل کی کئی مثالیں وطن عزیز میں ملیں گی۔حال ہی میں رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی نے کیا خوب عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے سندھ حکومت اور وزیر اعلی سندھ کی کرونا اور صحت کے شعبہ سے متعلق کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کیا خوب کہا کہ ارکان صوبائی اسمبلی کے ٹیسٹ آغاخان جیسے بڑے مہنگے ہسپتالوں میں جبکہ غریب کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں جہاں کی حالت زار گزشتہ باروں سالوں سے ابتر سے ابتر ہوگئی۔

انھوں نے کرونا سے ہلاک ہونے والے صوبائی و زیر مرتضیٰ بلو چ کے جنازہ پر ایس او پیس (کرونااحتیاطی تدابیر)کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہزاروں افراد کی شرکت کا زکر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کے مرحوم ہی کیا سندھ کے جائے تھا ؟،مگرغریب کی میت اسکے حوالہ نہیں کی جاتی۔سندھ کا غریب سندھ کا باسی نہیں ۔اسکو میت نہیں دی جاتی اسکوہسپتال میں داخلہ نہیں دیا جاتا۔

بلاشبہ نصرت صحر عباسی کی سندھ حکومت کے دہرے طرزعمل اور ناقص کارکردگی پر تنقید عوامی جذبات کی غمازی کرتی ہے کیونکہ عام شہری کو بھی سابق صدر آصف علی زرداری کی طرح بہترین علاج کی سہولیات میسر ہونی چاہئے مگر یہ بات تو قابل فخر ہے سندھ حکومت کے لئے کہ زرداری صاحب تو ملک میں ہی زیر علاج ہیں باہر تو علاج نہیں کروا رہے میاں نواز شریف کی طرح ۔

ستم زریفی تو یہ ہے کہ یہ سب دیکھ کر عام آدمی افسوس اور دکھ کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا ہے ،شاید بحثیت قوم ہمارے اعمال ہی ایسے ہیں کے ہم پر ایسے حکمران مسلط ہیں۔جہاں تک رہا سوال عدلیہ اور انصاف کا تو وہاں راتوں رات بدعنوانی کے ملزمان کو ضمانت پر رہائی دے دی جاتی ہے خصوصی حکمنامہ کے زر یعہ کیونکہ ان کو عدلیہ کے مقتدر حلقوں پر سیاسی قوت کا استعمال کرتے ہوئے اثر انداز ہونا آتا ہے جبکہ عام شہری چھوٹی سی قانون شکنی پرتاریخ پر تاریخ بھگتا ہے۔

ہمارے ملک میں آئے روز نیوز چینل اور اخبارات میں ایسی خبریں سنے کو ملتی ہے کہ ایک شہری کو بے گناہ کئی سال سزا بھگتنا پڑی یا کئی سالوں تک مقدمہ بازی کرتے ہوئے لوگ کنگال ہوگئے پر انصاف پھر بھی نہیں ملا۔مگر قربان جائے اس عدالتی نظام پر جو سزایافتہ شخص کو جیل میں تمام طبی سہولیات میسر ہوتے ہوئے بھی باہرجانے کی اجازت دے دیتا ہے۔یہ کیسا عدالتی نظام ہے جو مسلم لیگ(نون) کے سزا یافتہ قائد کو طبی بنیاد پر ضمانت دے دیتا ہے مگر انکی حکومت میں منہاج القرآن اور عوامی لیگ جیسی سیاسی اور مذہبی جماعت کے کارکنوں پر کھلے عام گولیاں چلانے اوردن کے اجالے میں قتل کرنے کے باوجود کوئی انصاف نہیں دے سکا۔


 الغرض ہمارے بہت سے مسائل بہت آسانی سے حل ہوسکتے ہیں جب ہم اپنے کو دوسرے شخص کی جگہ رکھ کر دیکھنے لگے کیونکہ قومیں جب ہی ترقی کرتی ہیں جب ان میں احساس اور بھائی چارگی کاجذبہ موجود ہوتا ہے۔ معاشرہ جب ہی خوشحال اور صحت مند ذہنیت کا حامل کہلاتا ہے جب بابا ا شفاق احمد کی دعاپر عمل کرتے ہوئے لوگوں کے لئے آسانیاں تقسیم کرنے کی انفرادی کوشش کی جاتی ہے ۔

دوسرے کے کردار پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں دس بار جھانکا جاتا ہے۔ تعصب اور خودپرستی جیسے جذبات وقتی طور پر تو فائدہ دے سکتے ہیں مگر تاریخ ایسے لوگوں کو ا فراموش کر دیتی ہے یا مفاد پرست اور تنگ نظر لوگوں کی فہرست میں جگہ دیتی ہے۔ اللہ ہمیں دوسروں کا درد سمجھنے اور بانٹنے والا بنا دے اور عوام اور مقتدر حلقوں کومنافقت جیسی مہلک بیماری سے خلاسی عطا فرما ئے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :