نوحہ کیسے کہوں؟

جمعرات 15 اپریل 2021

Saeed Cheema

سعید چیمہ

یادداشت کے توشہ خانہ پر دستک دینے سے دروازہ اگر صحیح سمت میں وا ہو رہا ہے تو شاید رحمان فارس نے کہا تھا کہ
جب خزاں آئے تو پتے نہ ثمر بچتا ہے
خالی جھولی لیے ویران شجر بچتا ہے
بات اگر پتوں اور ثمر کے نہ بچنے تک محدود رہتی تو رفو گری ممکن تھی، مگر مالی کیا کرے اور کیا نہ کرے جب پیڑ بھی سوکھنے لگ جائے، اور ایسے موسم میں جب دوسرے اشجار ہریالی کی گواہی دے رہے ہوں، کہیں آفتاب زیرِ عتاب ہے تو کہیں سڑکوں پر بپھرا ہوا ہجوم تاریخ کی سیاہی کو مزید گہرا کر رہا ہے، ساڑھے تیرہ سو برس ہوتے ہیں، امام ابو حنیفہ نے کہا تھا، میں نے صرف وہ کہا ہے جو میں نے کہا ہے، میں نے وہ نہیں کہا جو آپ نے سمجھا ہے، یہی معاملہ آفتاب اقبال کے ساتھ کیوں نہیں کیا جا رہا؟ ہر کوئی مفتی اعظم کی دستار کیوں پہننا چاہتا ہے، جب وہ بیچارا دہائی دے رہا ہے کہ میرا گمان بھی نہ تھا کہ اس سے توہین کا پہلو برآمد ہو سکتا ہے، تو ہمیں یقین کر لینا چاہیئے، رسالت مآبﷺ کی اس بات کو تو مان دے ہی سکتے ہیں کہ برے گمان سے بچو، گمان تو ہمیں کم از کم اچھا رکھنا چاہیئے۔

(جاری ہے)

جنید جمشید مرحوم پہ خدا رحم کرے،  ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا، اس کوچے سے شاید سبھی کو بے آبرو ہو کر نکلنا ہے، جائے امان کہاں ہے، نہ مذہب کی چھپر تلے، نہ سیکوالرزم کی منڈیر پر۔ ہر کوئی دوسروں پر نشانہ تاکے بیٹھا ہے، حتی کہ دائیں بازو والوں سے دائیں بازو والے محفوظ نہیں، یہی حال بائیں بازو والے بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرتے ہیں، رواداری کا بیج شاید کبھی ہمارے مٹی میں بویا ہی نہیں گیا، اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کا یارا کسی کو بھی نہیں ،بات کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کس چوک میں کوئی لال مائع کی دھار بہا دے، آخر شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے، کبھو پیغمبر کی میراث ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی، مولانا شبیر احمد عثمانی، اشرف علی تھانوی ایسے علماء تھے، اور اب وراثت کن ہاتھوں میں ہے، تذکرہ گول کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔

مطالبہ ان کا بہت سادہ سا ہے کہ اس ملک کے سفیر کو ملک بدر کرو، کتنی روانی و آسانی سے بات دہرائی جا رہی ہے، مرض جتنا سادہ معلوم ہو رہا ہے، علاج اتنا ہی پیچیدہ ہے، بات یہ مگر صرف طبیب جانتا ہے، مریض کی لاعلمی کہیئے، جہالت گردانیے یا کچھ اور، مگر وہ چاہتا ہے کہ اس مرض کا جلد از جلد تریاق ہو، اسباب کی اس دنیا میں یہ بات نا ممکن ہے، اس سارے قضیے سے جان چھڑانے کا آزمودہ نسخہ وہی ہے جو مولانا وحیدالدین خان بتاتے ہیں، صبر کے ذریعے مدد طلب کرنا، دلیل دینا، وہ اگر دس دلائل دے کر اسلام پر اعتراض کرتے ہیں تو آپ بیس دلیلیں دے کر ان کے اعتراضات کو دفع کیجیئے، "اور جو کوئی ہلاک ہوا، دلیل سے ہلاک ہوا"، الفرقان بھی یہی کہتا ہے، مگر ہمیں جذبات سے فرصت ملے تو ہم دلائل کی دنیا میں آئیں ۔

تاریخ انسانی کے عظیم ترین حکمران جو ابھی مدرسہ رسول میں زیرِ تربیت ہیں، سیدنا عمر ابن الخطاب۔ اجازت طلب فرمائی کہ اس منافق کو قتل کرنے دیجیے، اُدھر بھی اوجِ ثریا پر براجمان مدبر و مفکر نبی تھے، فرمایا: اگر قتل کی اجازت دے دی تو لوگ کہیں گے کہ محمدﷺ اپنے اصحاب کو قتل کرواتا ہے، اب پاک سرزمین کا حال بھی دیکھ لیجیئے، ڈنڈا بردار لوگ سڑکوں پر پولیس والوں کی خوب دھلائی کر رہے ہیں، کچھ بیچاروں نے تو جاں بھی جانِ آفرین کے سپرد کر دی، سوچ رہا ہوں کہ ان کی اولادوں پر کیا بیت رہی ہو گی، ننھی منھی بیٹیوں کو کیا بتایا جا رہا ہو گا کہ تمھہارے ابا کو نام نہاد عاشقان کے ہجوم نے قتل کر دیا، ان معصوموں کے بابے اگر دہشت گردوں سے لڑائی کرتے ہوئے شہادت کا جام پیتے تو ان کو میڈلز ملتے، مراعات ملتیں، مگر اب کیا ملے گا، ان بچوں کا کیا ہو گا جن کا سہارا فقط ان کا باپ تھا جو ہجوم کے ہاتھوں مارا گیا ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :