حضرت صوفی شاہ عنایت شہید رحمت اللہ علیہ ایک مرد قلندر‎

پیر 4 جنوری 2021

Sahibzada Faheem Bin Syed Gillani

صاحبزادہ فہیم بن سید گیلانی

 الارض اللہ کا نعرہ تو بہت سوں نے سنا اور لگایا ہوگا مگر اسکی عملی تفسیر اسکی سب سے شاندار مثال تاریخ میں صرف حضرت صوفی شاہ عنایت شہید کی مجاہدانہ زندگی میں ملتی ہے جن کے حالات واقعات کا درباری مورخین اور جاگیردار سرمایہ دار کہ زیر سایہ پلنے والے مولوی شاعر اور ادیب کم ہی کرتے ہیں بلکہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تاریخ اسلام کا یہ عظیم مجاہد بلا شبہ اپنی سرفروشانہ فقر غنا میں انسانیت کی معراج کو چھو چکا تھا افسوس کہ ہندوستان کے اکثر نامور علماء اور مورئخین نے بھی زکر نہیں کیا غالبا یہ انکی انقلابی سوچ کی وجہ ہے جن کے پیرو مرشد عبدالمالک جیلانی جن کا مزار ہندوستان کے صوبے گجرات کے علاقے بیجاپور کے گاوں شعلہ پور ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع ہے اور انکے ایک ممتاز خلیفہ اور مجاھد اسلام حضرت شاہ قبول اولیاء رحمت اللہ علیہ جن کا مزار اور انکی بنائ ہوئ مسجد پشاور شہر ڈبگری میں واقع ہے جن کا ایک طویل سلسلہ رشدو ہدایت جو آج تک چلا آرہا ہے کے زکر سے بھی اکثر قلم خاموش ہے وہ ایک انقلابی کمیون کے بانی تھے اور ہم خود بھی نمود نمائش نہیں چاہتے  اور ہمارے شہید صوفی رحمت اللہ علیہ خرق عادات و کرامات کے اظہار کو پسند نہیں کرتے تھے بلکہ وہ خود ستائ کے بجاے عملی کام پہ یقین رکھتے تھے ایسے عملی نظام کے بانی ہیں جن میں شامل اور اسکی بنیادیں انسان دوستی امن صلح اور مغلوں کی چیر دستی  ظلم کے خلاف قومی جدوجہد اور  جاگیردارنہ نظام کے لیے چیلنج اور  مشترکہ ملکیت ایک قابل عمل متبادل جیسے بہترین اصولوں پر استوار تھے وہ ایک ایسے مزدور کسان انقلابی تحریک بانی اور داعی تھے جس نے سوشلزم کمیونزم کے لادین نعرے سے دو تین صدیاں قبل  ایک قومی جمہوری تحریک اور ایک پاکیزہ اخلاق اور سچی روحانیت  بلکہ سچے اسلام اور سچی انسانیت کے ساتھ جھوک( میراں پور ضلع ٹھٹھہ) بڑی خوبصورتی سے چلائ اور  اس کا بے مثال عملی نمونہ دیا ہے اس نظام صرف دولت اور منصفانہ نظام اور ضروریات زندگی کی بات نہیں تھی بلکہ پیداوری عمل میں محنت اور مشقت میں بھی مساوی شرکت لازمی تھی ان کا رہن رسا اور زوق وجدان اس حقیقت سے آشنا ہو چکے تھے کیونکہ اصل مساوات تو وہ ہوتے ہیں جو پیدواری عمل میں کیئے جائیں کیونکہ جب چور اور لٹیرے چوری اور لوٹ کا مال جب بانٹتے ہیں تو ہیں تو مساوات تو انکے درمیان بھی ہوتی ہے  محض تقسیم کے وقت مساوات نہیں ہونے چاہیئں محنت و مشقت کی مساوات ہی دراصل اصلی مساوات محمدی ہے میرے سرکار تاجدار انبیاء اور سرور کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاتھ سے روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے نا کے مفت خورے کو اور آرام سے بیٹھے رہنے والے کو اللہ کا دوست فرمایا حضرت صوفی شاہ عنایت نے سب سے پہلے اپنی زات اور اپنی زمین سے جن تعلیمات کا آغاز کیا وہ محنت کش اور کسانوں کو اتنی پسند آئیں کے دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک جس کا سربراہ خود ایک باعمل صوفی تھا جھوک کی بستی سے پھیل کر دوسرے علاقوں میں پھیلنے لگی اور اس تحریک میں نہ زور نہ زبردستی نہ بیرونی امداد نہ ضمیرفروش قلمکار نام نہاد ترقی پسند نہ کھو کھلے وعدے اور نہ زبردستی اشتہار بازی نہ ایجنسیوں کی سپورٹ نہ اس میں ٹیکس نہ بڑی توند والا پیر نہ عماموں کے کفن میں ملبوس دنیا دار مرشد بلکہ کے ایک پرسکون فضا میں ایک کامیاب سماجی اقتصادی تجربہ جہاں حضرت سید صوفی شاہ عنایت شہید رحمت اللہ علیہ کا ایک ہی نعرہ تھا جو کھیڑے سو کھاے زمین اسی کی جو اگاے گا
واہ ابھی تو مارکس بالا عالم سے رحم مادر بھی نہیں اترا تھا اور امام الہند شاہ ولی اللہ ابھی گود کا بچہ ہی تھا کے جہاں اس ٹھٹھہ کی پاکیزہ زمین جہاں پہ ابھی محمد بن قاسم کے قدموں کے نشان ابھی ختم ہی نہیں ہوے تھے جو آج بھی موجود ہیں پر وقت کے راجہ داہروں کو ایک اور روح محمدی للکار رہی تھی بھلا جاگیردار سرمایہ دار کو یہ چیز کیسے بھا سکتی تھی کے کوئ مزدور اور محنت کش کاشتکار کی زندگ میں خوشحالی آ جاے ظالم سماج جس کی شکلیں آج بھی پور طرح موجود ہیں بلکہ صرف نام بدل گے ہیں نے مولویوں درباریوں آج کل جیسے بیورو کریٹس ہوتے ہیں اور سندھ سے بلوچستان کے مقامی سردار جیسے آج کل کے ممبران قومی اسمبلی کلہوڑے پلیجو اور جٹ نے سب سے پہلے کفر کے فتوے داغے اور پھر حسب معمول مارگلہ کی پہاڑیوں میں بیٹھے دہلی کے بادشاہ وقت فرخ سیر کے کان میں کھسر پھسر کی فرخ سیر کے کردار اور بادشاہت کے نظام سے تاریخ ہمیں کافی کچھ اچھا نہیں بتاتی تو اسے کہا گیا کے علیجاہ آپ کے تخت کو عوامی سونامی اور فکر تصوف عملی دھرنے سے سخت خطرہ ہے جلدی سے آپ اعظم خان کو بھیج دیجئے یہ اعظم خان وہ اعظم خان تھا جو اس وقت بنگال کا بھی گورنر تھا  تاکہ فتنے کی سرکوبی کی جاے یاد رہے کے تاریخ میں ہمیشہ جاگیرداروں خفیہ اداروں اور طرفداروں مولویوں نے مجاہدین اسلام اور سرفروشان اسلام کو اس طرح تعبیر کیا ہے کے مجاہدین اسلام نے خود کے لیے یہ سب کیا ہو جیسے آج کل غدار وطن پے رول پر ہونا ایجنٹ یا دہری شہریت حاصل کرنا وغیرہ بندے پہ الزام آ جاے ظلم کے خلاف آپ نے ایک خاموش آواز آٹھا کر ایک پر امن نتائج کے اعتبار سے ایک مفید اور سودمندانہ نظام  دے کر حضرت صوفی شاہ عنایت رحمت اللہ علیہ کب تک زندہ رہے سکتے تھے آخر کار مغل بادشاہ فرخ سیر جو اپنے آباواجداد کی سلطنت کو ہچکولے کھاتے دیکھ رہا تھا اور جہاں عنقریب محمد شاہ رنگیلا کی خبر لینے کے لیے قضاوقدر کا نادرشاہی  فیصلہ ہو چکا تھا فرخ سیر بدبخت بادشاہ نے کشت خون کا شاہی فرمان جاری کر دیا جیسا کے وارلڈ 9 /11 کے نیو وارلڈ آرڈار کے ریڈ پر دستخط کر دئیے اور پھر خون شہیداں اتنا بہا کے جھوک کی پوری بستی خون خون ہوگی ایک سچا اور تاریخی انقلاب تاریخ عالم میں سرخرو ہو چکا تھا
سرداروں وڈیروں اور نام نہاد پیروں نے ان صحابی صفت انسانوں کا ایسا قتل عام کیا کے اس چھوٹی سی بستی جس میں چوبیس ہزار کاشتکار دن کو مشقت اور رات کو زکر میں مشغول رہتے تھے کو چن چن کر شہید کیا حکم تھا کے جو بھی اللہ کا لفظ منہ سے نکالے سر تن سے جدا کر دے بھلا خدا کے عشق کے سرمستوں کو کون روک سکتا ہے یہ نام لیوا نام لینے سے اور وہ قاتل لشکر تلوار چلانے سے گویا جیسے طالبان جہاں دیکھو مار ڈالو افسوس کے آج کے طالبان تو اہم موزی دشمن مطلب کے فقیروں نے جاگیرداروں کے خلاف ایک بھی دھماکہ نہیں کیا بلکہ سارا زور بچاری پولیس اور فوج اور نہتی عوام پر ہے کاش آج کے دینی یا معاشی انقلاب کے داعی طالبان کے نظریئے کے حامی حضرت سید شاہ عنایت کی زندگی سے کوئ سیکھ لے میر علی سیر قانع جیسے سرکاری مصنف نے بھی لکھ دیا کے سبحان اللہ کے
کیا خدائ ہے کے اس کا نام لینے پر سر قلم ہو جاتے ہیں لیکن عاشقون کا راستہ تو بس یہی ہے آج بھی جھوک شریف میں گنج شہیدان کے نام پہ ایک بہت بڑا قبرستان موجود ہے صرف اس جنگ میں مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندوں اور غیر مسلموں نے بھی کٹ کٹ کر مرنے کا فیصلہ کیا اور تو اور یہ وسیعت کر دی انہوں نے کے ہمیں مرنے کے بعد نہ جلایا جاے اگر ہم اس جنگ میں مارے جاتے ہیں قتل کر دئیے جاتے ہیں تو ہمیں ان مسلمان شہیدوں کے ساتھ دفنا دیا جاے جب میری پوسٹینگ تھی سندھ میں تو میں  اکثر اپنے بچپن میں اکثر یہ قصہ سنا کرتا تھا اپنے بڑوں سے کتابوں میں پڑھا بڑوں سے سنا تھا ایک شدید خواہش تھی کے کاش میں بھی اس عظیم ہستی کے داور میں ان کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوتا اپنی زندگی کو صوفی حضرت سید شاہ عنایت رحمت اللہ علیہ کی زندگی کے مطابق گزارنے کی پوری کوشش کرتا بہر حال میرا ایک واچ مین تھا میں نے اس سے ایک دن بلایا اور پوچھا کے میں یہاں حضرت سخی لعل شہباز قلندر کے دربار پہ گیا ہوں شاہ عبدالطیف بھٹائ کے دربار گیا ہوں میں نے بہت سے سندھی بھائیوں سے ایک بزرگ ہستی کے بارے میں پوچھنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن مجھے کوئ خاص کسی نے ان کے بارے میں نہیں بتایا اور وہ میرے دادا حضرت سید شاہ قبول اولیاء پشاور کے مرشد ہیں تو وہ اس درگاہ کا مرید نکلا اور از مختصر میرا رابطہ صوفی وارث سائیں سے ہوا میری ان سے پہلی دفعہ موبائل فون پہ رابطہ ہوا تو ان سے بات کر کے نہایت خوشی ہوئ اور کچھ عرصہ بعد مجھے انہون نے دعوت دی کے سائیں ہم گھڑی خیرو آ رہے ہیں یہاں پہ ایک محفل اور سائیں چیزیل کی برسی تھی وہاں پہ ملاقات ہوی اور ساری رات صوفی وارث سائیں سے حضرت سید شاہ عنایت رحمت اللہ کے اس واقعہ پہ کافی گہری معلومات حاصل کئیں 1130 ھ 15 صفر کو گورنر اعظم خان نے جلاد کو حکم دیا اور حضرت صوفی شہید رحمت اللہ علیہ کا سر مبارک سر تن سے جدا کردیا وہ بھی اسی تلوار سے جو آپ کے مرشد عبدالمالک جیلانی رحمت اللہ علیہ نے اس شرط پہ دی تھی کے اسکی قیمت سر کی صورت میں  ہے جب جلاد کی تلوار نے کام نہ کیا تو آپ نے فرمایا کے
ہماری تلوار لائ جاےیہ ہرکس ناکس کا سر نہیں ہے جس کی دھار کے لیے ہر ایرے غیرے کی تلوار کام آے یہ تو شاہ شہیداں کا سر مبارک ہے یہ کسی شاہ شاہاں کی تلوار سے کٹے گا عبداللہ بن زبیر کے سر کی طرح اس سر نے بھی نیزے پر سواری کی بالاآخر اسی کیف و مستی میں بادشاہ فرخ سیر کے دربار میں جا پہنچا شہید کی زبان مسلسل جزب ووصل اور آتش عشق سے نغمہ زن رہی  یہ اشعار بے سرنامہ کے نام سے مشہور ہیں  جب عشق زن میں غوطہ لگا رہے تھے جب جلاد ان کو مارنے شہید کرنے کے لیے بڑا اور آپ مسکراے اور اس کے سامنے یہ اشعار پڑھے
رہایندی مرا از قید ہستی
جزاک اللہ فی الدارین خیرا
یعنی کے اس جسم کے قیدو بند سے آزاد کرنے پر اللہ تمہیں دونوں جہانوں کا جزاے خیر دے ہے کوئ اپنےجلاد کو دعا بھی دے اور اپنے پیرو مرشد کی تلوار بھی ایک مشہور فلسفر اور سوشلسٹ سبط حسن نے کیا خوب لکھا ہے ریاست کی قوت قاہرہ حق وانصاف کے بجاے ہمیشہ عوام کے خلاف اونچے طبقوں کی حمایت کرتی ہے  افسوس اس بات کا ہے کے تاریخ محمد بن قاسم محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا زکر تو بڑے شدومد سے کرتی ہے لیکن ہماری سبھی نسل حضرت سید صوفی شاہ عنایت شہید سے واقف نہیں سبط حسن کی یہ بات بلکل درست ہے کے ہمیں دوسرے عظیم ہستیوں کے ساتھ ساتھ حضرت سید صوفی شاہ عنایت رحمت اللہ علیہ کی زندگی اور انکا جزبہ ایثار سرفروشانہ تحریک کا مطالعہ کرنا چاہیئے یہ ایک قدرتی امر ہے کے آپ اگر کسی ظالم  بادشاہ کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو وہ آپ کے اوپر پورا لاو لشکر لے کر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا آج کل کی نام نہاد تنظیم جو مزہب کے نام پر بنی ہوئ ہیں اگر وہ کاش کے حضرت صوفی شاہ عنایت کی زندگی سے سبق حاصل کرتی تو معاشرے میں یہ ظلم بد امنی اور لوگ بے راروی کا شکار نہ ہوتے وہ ایک عظیم ہستی جس نے وقت کے فرعونوں کو للکارا اور انسانیت کو روشناس کرایا آج کل تنظیمیں جیسے جماعت اسلام تنظیم نام تو اسلام کا امن کا نعرہ انصاف کا ظلم سے نجات کا لیکن کوئ ان میں انصاف کا عملی کارنمہ نہیں محض سب باتوں تک ہے کاش کے آج بھی کو صوفی شہید جیسا نڈر بےباک لیڈر ہوتا اس جیسی کو سرفرشانہ تنظیم کا بانی ہوتا تو آج ہمارے ملک
کے ایسے حالت نہ ہوتےاس لیے ہمیں ایسے بندوں کے گریبانوں سے پکڑ کر گھسیٹنا چاہیئے مگر یہاں کہانی الٹ ہے ہمارے قلمکار ان کے آستانوں میں جاتے وہاں پہ انکی دعوتیں کھاتے ہیں اور گپیں لگاتے ہیں کچھ وظیفہ لیتے ہیں اور اس کے بعد انکی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں اور اگلی صبح ان لٹیروں اور دھوکے بازوں کی اخباروں میں اخبار کے فرنٹ پیج پہ ایسے لگے ہوتی ہیں جیسے بہت بڑا انقلاب لے آے ہوں اور سب کچھ فتح ہو گیا ہے پڑھنے والے میری ان عبارتوں کو پڑھ کر چونک اٹھیں گئیں کیونکہ اگر ایسا کوئ شاہ عنایت پھر سے اٹھا اور یہ داور ابراہیم کی تلاش میں کامیاب ہو گیا اور اسکو خامئہ جوش لکھنے والے قلکار بھی میسر آ گے اور  تو ایک کربلا کا تجربہ پھر سے یہاں ہو سکتا ہے اور اس بار صرف کتابوں میں اسلام زندہ نہیں ہوگا حقیقت میں اسلام زندہ ہوگا اب بھی یہاں گنج شہیداں بن سکتی ہے اس بار غریب مزدوروں اور کاشتکاروں کی قبریں نہیں بلکہ کرپٹ افسروں کی بیوروکریٹس کی سیاستدانوں کی شراب خور حرام خور سرمایہ داروں کو دفن ہونا چاہیئے
یہ کام کوئ سونامی ساز بلے کا نہیں نہ ہی کسی سرمایہدار کا ہے اور نہ ہی کسی سیاستدان بلکہ یہ تو کا صرف اور صرف صوفی ہی کر سکتے ہیں کسی پٹھانوں کے ہاتھوں  سید احمد شہید یا کسی وڈیرے کے ہاتھوں حضرت سید صوفی شاہ عنایت شہید رحمت اللہ علیہ کی ضرورت ہے بلکہ کوئ بھی اس نظام کے مخالف نعرے مارے گا چاہے وہ جھوک شریف کا شاہ عنایت ہو یا افغان طالبان الغرض جارج بش ہو یا گورنر اعظم خان وہ اس کو نہیں چھوڑے گا میرے مرشد حضرت سلطان احمد علی صاحب رحمت اللہ علیہ نے بھی ایک دن جب انہوں نے مجھے اللہ کا نام دیتے ہوے کیا خوب فرمایا تھا کے شاہ صاحب جب آپ کسی ظالم بادشاہ کے خلاف نعرہ بلند کرتے ہیں تو وہ پوری قوت لے کے آپ پہ حملہ کرے گا اور جو قدم آپ نے اچھائ کی طرف اٹھایا ہو گا اسے روکنے کی کوشش کرے گا اسی طرح شاہ صاحب آپ جب اسم اعظم اللہ زات لے کے جائیں گئیں تو شیطان جو انسان کا کھلا دشمن ہے یہ آپ کو اس کو پڑھنے سے آپ کو زکر قلبی کرنے سے روکے گا اور معرفت کی پہچان سے روکے گا تو آپ نے استقامت اختیار کرنی ہے اور اللہ کی اس رسی کو مضبوطی سے تھام لینا ہے  یہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی والی بات ایک خام خیالی ہے جب تک آپ ایک پختہ ارداہ نہیں رکھتے قارئین اکرام میں نے سبط حسن کا گلہ دور کرنے کی کوشش کی ہے  جو لوگ اس ضمن میں مزید پڑھنا چاہیئں ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب عشاق کے قافلے ،شاہ عنایت شہید ،دردنامہ ،انیس السالکین ،بے سرنامہ دیکھ لیں اور ایک اور کتا تیرے پر اسرار بندے حضرت سید لیاقت علی شاہ گیلانی رحمت اللہ علیہ نے کی ہے جو آج کل حضرت سید شاہ قبول اولیاء رحمت اللہ علیہ کے جانشین ہیں اور گدی نشین ہیں آپ کی کتاب میں ماشاءاللہ بہت اچھی اور مستند معلومات ہے میں بزات خود اس کتاب سے بہت متاثر ہوا ہوں آپ نے صوفی شہید کے عشق میں ڈوب کر کتاب لکھی اور الفاظ کو موتیوں جیسے پرویا ہےاللہ تعالی آپ کو اس نیک اور عظیم کام کا اچھا صلہ دے اور آج کے داور میں بہت سے کلہوڑے اور پلیجو اس دربار سے فیض حاصل کرنے آتے ہیں حالانکہ کے انکے خاندان کے آباواجداد نے ظلم کی داستان یہاں پہ رقم کی اور اللہ تعالی نے انکی آنے والی نسلوں سے ان کی خدمت اس درگاہ سے خدمت کروا رہا ہے افسوس کے انکی تحریروں میں حضرت سید شاہ قبول اولیاء کا زکر نہیں ملتا اور ان پر بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ان کا سلسلہ بھی ایک عظیم الشان سلسلہ ہے اور الائ مانسہرہ کے شیخ عبدالسلام (شیخوبابا) صاحب تصرف صوفی انہی کا مرید خاص ہے ان پر بھی مزید کام کی ضرورت ہے رہےنام اللہ کا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :