کورونا یا ایمان کی کمزوریاں

منگل 7 اپریل 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

ہاتھ مت ملاؤ کرونا ہو جائے گا
گلے مت ملو کرونا ہو جائے گا
اس کے پاس مت بیٹھو کرونا ہو جائے گا
ایسے جملے اکثر ان دنوں آپ کی سماعت کی نظر ہوئے ہونگے،میری نظر بھی کافی جملے گزرے ایسے مایوسی سے بھرے ہوئے،دلبرداشتہ، اور دلخراش قسم کے لفظوں سے بھرپور
یہ کرونا کی وجہ سے نہیں ہمارے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے نکل رہے ہیں ایسے جملے جو سننے سمجھنے والے کے دل کو چیر کر گزر جاتے ہیں اور کہنے والے کو رتی برابر فرق نہیں پڑتا
''تقدیر کا لکھا اٹل ہے''
یہ سب تو ہم مانتے ہیں نا؟؟؟ پھر کسی کو چھونے سے گلے ملنے سے یا مصافحہ کرنے سے ہمیں کرونا کیسے ہو سکتا یا کوئی بیماری ہمیں کیسے لگ سکتی جبکہ ہوتا تو وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہوتا ہے پھر اگر تقدیر میں کرونا یا کوئی بیماری لکھی ہی نہ ہو گی تو ہمیں کیسے اور کیونکر وہ بیماری یا وہ جراثیم لگ سکتے جو اس آدمی میں پائے جاوے ہیں
آج جمعہ کی نماز پڑھاتے وقت مسلے کرتے سمے انھوں نے ایک حدیث سنائی
کہ
''ایک صحابی روایت کرتے ہیں عرب کے زمانے میں ایک بدو نے اونٹوں کا ایک رویوڑ پال رکھا تھا خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک اونٹ کو ''خارش'' کی بیماری لگی چند دن اس واقع کو گزرے تھے کہ کافی سارے اونٹوں کو بھی وہی خارش کی بیماری لگ گئی
حالانکہ عرب جہالت کی کالک میں کلکے ہوئے تھے مگر انکا یقین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس قدر پختہ تھا کہ ہر معاملے کے سلجھاؤ کیلیئے مشورہ آپ ہی سے مانگتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی جھوٹ نہیں بولتے
وہ چارو نا چار آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یوں گویا ہوا
اے اللہ کے نبی کچھ دن پہلے میرے ایک اونٹ کو خارش کی بیماری لگی اور اب دیکھتے ہی دیکھتے وہ بیماری اس اونٹ سے دوسرے اونٹوں میں منتقل ہوئے جا رہی ہے کوئی حل بتائیں
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ دوسرے انٹوں کو بیمارے اس پہلے والے اونٹ کی وجہ سے لگی؟؟
آپ نے فرمایا پہلے والے اونٹ کو بیماری اللہ کے حکم سے لگی وہ بیماری اسکی تقدیر میں پہلے دن سے لکھ دی گئی تھی اور باقی اونٹوں کو بیماری انکی تقدیر میں لکھے ہونے سے لگی نہ کہ اس پہلے والے اونٹ کی بدولت لگی
جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے
'' کوئی کام بھی اللہ کے حکم کے بغیر نہیں ہوتا''
''ایک پتہ تک بھی اللہ کے حکم کے بغیر نہیں ہل سکتا''
تو پھر کیسے اور کیونکر ایک اونٹ سے دوسرے اونٹ میں ایک بیماری منتقل ہو سکتی
اب اس تمام تر واقع کو ہم آج کے دور پر لاگو کرتے ہیں
 ''کیسے اور کیونکر ایک آدمی کے چھونے سے یا گلے ملنے سے دوسرے آدمی کو کرونا ہو سکتا جبکہ اللہ کے رسول فرما رہے جسے جو ہوتا اسکی اپنی قمست اپنی تقدیر میں لکھا ہونے کی وجہ سے ہوتا''
تقدیر کا لکھا اٹل ہے جس کی قسمت میں جو لکھا اسکے ساتھ وہ ہو کر ہی رہنا ہے پھر چاہے وہ بچاؤ کے لاکھ طریقے ڈھونڈ اپنا لے
جیسا کہ موت انسان کو ہر حال میں آ کر ہی رہنی ہے چاہے وہ جدھر مرضی بھاگ لے چھپ لے
بالکل اسی طرح جو بیماری جو تکلیف انسان کی تقدیر میں لکھ دی گئی ازل سے اس نے لاکھ روکنے لاکھ تدابیر کرنے سے بھی نہیں ٹلنا ہر حال میں اس شخص تک پہنچ کر ہی رہنا جس کی قسمت میں وہ لکھ دی گئی ہے
جانتے ہو ایسی ناگہانی آفات تب آتی ہیں جب اللہ پاک اپنے بندوں سے ناراض ہوتے ہیں
اور اللہ پاک ناراض تب ہوتے ہیں جب ان کے پیدا کیئے ہوئے بندے حد سے زائد نافرمانیاں حد سے زائد اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں
اگر ہم اپنے ارد گرد اپنے گریباں میں نظر دوڑائیں تو ہمیں صاف پتہ چل جائے گا کہ اللہ تعالی ہم سے کیوں ناراض ہیں اور جب کوئی کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اسے منایا جاتا ہے اب ضرورت ہے اللہ میاں کو منانے کی اور اللہ میاں تو انسان کے ایک آنسوؤں کی ٹپکتی بوند سے بھی مان جاتے ہیں
اب ضرورت ہے اپنے کیئے پر نادم ہونے کی شرمندہ و شرمسار ہونےکی تا کہ اس ناگہانی آفت سے بڑھ کر کچھ اور نہ ہم پر نازل ہو
اب بات کرتے ہیں حال ہی میں لاگو ہوئے جزوی لاک ڈاؤن کی
''اصل میں ہم اس سوشل میڈیا کی بیماری کے کچھ یوں بیمار ہوئے ہیں نا کہ اس بیماری نے ہماری جڑیں کمزور کر کے دکھ دی ہیں''
اس فیس بک کے کرموں کا صلہ ہے کہ ہم چند پل کی خوشی کیلیئے ایک اچھے خاصے اقدام کو جو عوام کی بھلائی و ترقی کیلیئے لیا جاتا ہے(اٹھایا جاتا ہے) اسکا مذاق بنا کر اسکی خاصیت کو ہلکا کر دیتے ہیں
یوں ہی کچھ اس جزوی لاک ڈاؤن کے ساتھ بھی بیتی ہماری کوشش کچھ یوں ہونی چاہیےتھی کہ آیا کہ یہ کیوں لگایا گیا؟؟
مگر نہیں ہم تو ٹھہرے ماہا دانشور ہم نے اپنی فلاسفیاں ہی جھاڑنی ہوتی
ہم نے بجائے اس کے کہ اسے پازیٹیو لیتے کہ شاید ہو سکے ہے اس میں ہماری ہی بھلائی ہو تھوڑا صبر کر لیا جائے اسکے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہم نے ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا
آخر سٹیٹس بھی تو لگانے تھے،ٹائم لائن بھی تو کالی کرنی تھی،ٹائم بھی تو گزرانا تھا
ہم نے کہنا شروع کر دیا
کہ
حکومت نے ہم بیچاری غریب عوام کو بھوکا مارنا ایک تو پہلے کورونا کم تھا جو اوپر سے لاک ڈاؤن کا ڈراما رچا دیا وغیرہ وغیرہ
اب آتے ہیں حقیقت کی طرف کہ یہ کیوں لگایا گیا؟؟؟
میرے ایک جاننے والے پیشہ سے ڈاکٹر ہیں
حال ہی میں،میں ان سے ملا اور کورونا کے جراثیم کے بارے میں دریافت کیا کہ آیا کہ اسکی مدت کتنی کتنے دن یہ زندہ رہتا ہے شاید پتہ چل جائے اس لاک ڈاؤن اور کورونا کا آپس میں کیا سنبد ہیں
وہ گویا کہ سلیم صاحب کورونا کے جراثیم دو سے اڑھائی دن تک ایک جگہ زندہ رہتے ہیں یعنی کہ ایک آدمی جسے کورونا ہے اگر وہ چھینکے گا اور جس جگہ وہ چھینکے گا اس جگہ اگلے دو سے اڑھائی دن تک وہ جراثیم زندہ رہیں گے اور اگلے چند دن گزرتے ہی وہ خود بخود مر جائیں گے اور اگر جس جگہ وہ پڑے ہیں اس جگہ سے کوئی گزرے گا تو وہ اس میں منتقل ہو جائیں گے یعنی انھیں نیا شکار مل جائے گا اب آپ خود حساب لگا لیں اگر اگلے تین چار دن کوئی گھر سے نہ نکلے گا تو جو جراثیم باہر پڑے ہیں جب انھیں انکا نیا شکار ہی نہیں ملے گا تو وہ خود بخود اپنی موت آپ مرجائے گا
مجھے اس ملاقات کے بعد جزوی لاک ڈاؤن لاگو کرنے کا مطلب فوری طور پر سمجھ آ گیا کہ اصل میں اسکا مقصد ہماری ہی حفاظت کرنا ہے
اپنی موٹی عقل رکھنے والی عوام کیلیئے ہدایت اور اپنے لیئے خدا تعالی سے دعا کروں گا کہ
خدا سب کو اپنی پناہ آمان میں رکھیں آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :