
انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے
پیر 18 مئی 2020

سلیم ساقی
ہمارے مائنڈ میں بس ہمارا گول ہونا چاہیے۔ ہماری سوچ کا تمام تر محور بس ہمارا کیریئر ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)
نہ کے گول تک جاتی راہ میں حائل پاؤں میں اٹکتے روڑے۔
کیونکہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی ہمیشہ وہی سر کرتے ہیں۔ جن کی بم میں دم ہوتا ہے۔ وگرنہ نیچے کھڑے ہو کر اوپر کو نظر دوڑانے سے پینٹ گیلی ہی پڑتی ہے۔ پھر کبھی اوپر کو قدم نہیں اٹھ پاتے بلکہ لڑکھڑانا مقدر بن جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں نا
ہمارے ہاں تین قسم کے بچے پائے جاتے ہیں۔ جو امتحان دینے کے لیے امتحانی سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔
پہلی قسم
یہ وہ بچے ہوتے ہیں جو سال بھر کی کلاسز بھی باقاعدگی سے لیتے ہیں۔ بنک نہیں مارتے۔ روزانہ کا کام روزانہ کرتے ہیں۔ انکے نمبرز بھی ماشاءاللہ ٹوٹل کلاس کے نمبرز ملائیں تب جا کر ان کے نمبرز بنتے ہیں۔ ہمیشہ کلاس ٹیچر کو یہ بھی یاد دلواتے ہیں کہ سر جی کل آپ نے فلاں ٹیسٹ کا کہا تھا۔ یعنی لب لباب ہر ایک کام میں اول اور ہر پروفیسر کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔
دوسری قسم
اس کیٹیگری میں مڈل بچے آتے ہیں جو پڑھائی میں نہ تو ذیادہ تیز ہوتے ہیں اور نہ ہی سست تیز بولے تو پہلی قسم کے بچوں سے تھوڑا نیچے اور سست بولے تو بنکرز اور نل اسٹوڈنٹس کی کیٹگری سے اوپر۔ اصل لائف یہی انجوائے کرتے ہیں۔ یا پھر نالائق اسٹوڈنٹس انجوائے کرتے ہیں جنھیں کلاس میں ہی پروفیسر صاحب گیٹ آؤٹ بول کر کلاس سے باہر نکال دیتے ہیں۔ دوسری کیٹگری کے بچے ہوشیار ہوتے ہیں جبھی تو پڑھائی کے ساتھ ساتھ سپورٹس میں بھی حصہ لیتے ہیں۔
تیسری قسم
نالائق اسٹوڈنٹس جو بس کلاس میں نام کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ انکا کام بس شغل لگانا۔ ہوٹنگ کرنا اور کبھی کبھی چھوٹے موٹے غنی بھائی بننا انکے پسندیدہ مشاغل میں آتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں سب سے بیسٹ کیٹگری کی۔ بظاہر دیکھا جائے تو کیٹگری اے سب سے بیسٹ ہے۔ نو ڈاؤٹ لیکن زندگی کی بھاگ دوڑ میں ذیادہ تر ٹھوکریں بھی یہیں کھاتے ہیں۔ اسکی کیا وجہ ہے میں بتاتا ہوں۔ کلاس کے ٹاپرز کو عموما نروس دیکھا گیا۔ کبھی پڑھائی میں اوپر جانے کی ٹینشن تو کبھی کلاس میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی ٹینشن۔ کبھی کوئز کمپیٹیشن میں بن بتلائے سلیکشن پر خود کو سر خرو کرنے کی ٹینشن تو کبھی کمپیٹینٹ ایگزیم میں ہار جانے کا دکھ لیے بیٹھے ہونا۔ کبھی کمرہ امتحان میں کرسی پر بیٹھ کر لبوں سے بڑبڑانا۔ تو کبھی اس ٹینشن سے ہوا ٹائیٹ ہو جانا نجانے پیپر کیسا آیا ہو گا۔اسی ٹینشن میں انکا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے بچہ نروس ہو جانے کی بدولت کلاس ٹاپر ہونے کے باوجود صحیح پرفارم نہیں کر پاتا اور ڈی۔گریڈ ہو کر ہمت ہار بیٹھتا ہے۔
ایسی صورتحال کو کچھ ٹاپرز تو بہت اچھے سے ہینڈل کرتے ہیں۔ ایک دم فریش موڈ سے لیکن ذیادہ اچھے سے ہینڈل کرتے ہیں مڈل کلاس بچے جنھیں نہ تو اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ انھیں آتا کچھ نہیں۔ نہ اس بات کا لالچ ہوتا ہے کہ انھیں بورڈ میں پوزیشن لے کر اپنے اسکول و کالج کا نام روشن کرنا ہے۔ ہاں البتہ خواہش ضرور ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں نا
کوشش کرتے رہنا چاہیے کیونکہ کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سلیم ساقی کے کالمز
-
افزائش نسل کی بڑھوتری کے ثمرات و نقصانات
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
عشق مجازی سے عشق حقیقی
پیر 13 ستمبر 2021
-
''ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے''
منگل 24 اگست 2021
-
تھرڈ کلاسیے ایکٹرز
منگل 1 جون 2021
-
''جسد خاکی یہ ستم نہیں اچھا''
منگل 4 مئی 2021
-
لیبرز ڈے
ہفتہ 1 مئی 2021
-
رمضان کو بخشش کا فرمان کیسے بنائیں؟
منگل 27 اپریل 2021
-
کہاں کھو گیا وہ برگد کا پیڑ پرانا
ہفتہ 24 اپریل 2021
سلیم ساقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.