انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے

پیر 18 مئی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

مانتا ہوں انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے۔لیکن اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ پے در پے غلطیاں ہی کرتے چلے جائیں۔ اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپکی تمام تر عمر یہ سوچ کر غلطیاں کرنے میں ہی گزر جائے کہ میں نے سنا تھا انسان غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے۔ غلطی کرو لیکن جب وہ ہو جائے پھر اسے سدھارنے کی کوشش کرو۔ اگلی بار جب تم غلطی کر بیٹھو تو پچھلی غلطی کی مانند اس دفعہ غلطی کم امپروومنٹ  ذیادہ لگے۔

وگرنہ غلطی در غلطی انسان کے ضمیر کو مار دیتی ہے، گر کر اٹھنے کی دوبارہ کوشش کی قاتل ہوتی ہے غلطی۔ غلطی انسان کے گول تک پہنچنے کی تمام تر امیدوں اور پختہ ارادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔
ہمارے مائنڈ میں بس ہمارا گول ہونا چاہیے۔ ہماری سوچ کا تمام تر محور بس ہمارا کیریئر ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

نہ کے گول تک جاتی راہ میں حائل پاؤں میں اٹکتے روڑے۔

کیونکہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی ہمیشہ وہی سر کرتے ہیں۔ جن کی بم میں دم ہوتا ہے۔ وگرنہ نیچے کھڑے ہو کر اوپر کو نظر دوڑانے سے پینٹ گیلی ہی پڑتی ہے۔ پھر کبھی اوپر کو قدم نہیں اٹھ پاتے بلکہ لڑکھڑانا مقدر بن جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں نا
ہمت مرداں مدد خدا
کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔ ہاں پر کوشش کی صحیح معنوں میں کوشش کی جائے تو۔

ایسا تھوڑی نا ہوتا ہے۔ امتحان سے ایک رات قبل پڑھ کے پیپر دے لیئے،نیٹ پر سے کاپی پیسٹ کر کے اسائنمنٹ بنا لی سبمٹ بھی کروا لی۔ نمبرز بھی آ گئے۔ اچھا سی۔جی۔پی۔اے بھی آ گیا۔ ڈگری بھی ہاتھ میں آگئی۔ لیکن بعد میں جب کمپیٹینٹ ایگزیم میں اپیئر ہونے کی باری آئی تو پتہ چلا ہماری تو اچھی خاصی لگ گئی۔ کیونکہ جو ہم نے پڑھا تھا وہ تو ہم نے پیپر دے دیئے کیونکہ ہم نے تھوڑی نا پرماننٹ میموری میں سیو کیا تھا۔

ہم نے تو ٹیمپوریری میموری میں سیو کیا تھا۔ اور وہ تو پیپرز میں یوز ہو گئی۔ اب کیا کریں۔ چلو جی دوبارہ سے لائبریریز کے چکرز لگاؤ تمام تر بکس کی خاک چھانو۔
ہمارے ہاں تین قسم کے بچے پائے جاتے ہیں۔ جو امتحان دینے کے لیے امتحانی سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔
پہلی قسم
یہ وہ بچے ہوتے ہیں جو سال بھر کی کلاسز بھی باقاعدگی سے لیتے ہیں۔

بنک نہیں مارتے۔ روزانہ کا کام روزانہ کرتے ہیں۔ انکے نمبرز بھی ماشاءاللہ ٹوٹل کلاس کے نمبرز ملائیں تب جا کر ان کے نمبرز بنتے ہیں۔ ہمیشہ کلاس ٹیچر کو یہ بھی یاد دلواتے ہیں کہ سر جی کل آپ نے فلاں ٹیسٹ کا کہا تھا۔ یعنی لب لباب ہر ایک کام میں اول اور ہر پروفیسر کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔
دوسری قسم
اس کیٹیگری میں مڈل بچے آتے ہیں جو پڑھائی میں نہ تو ذیادہ تیز ہوتے ہیں اور نہ ہی سست تیز بولے تو پہلی قسم کے بچوں سے تھوڑا نیچے اور سست بولے تو بنکرز اور نل اسٹوڈنٹس کی کیٹگری سے اوپر۔

اصل لائف یہی انجوائے کرتے ہیں۔ یا پھر نالائق اسٹوڈنٹس انجوائے کرتے ہیں جنھیں کلاس میں ہی پروفیسر صاحب گیٹ آؤٹ بول کر کلاس سے باہر نکال دیتے ہیں۔ دوسری کیٹگری کے بچے ہوشیار ہوتے ہیں جبھی تو پڑھائی کے ساتھ ساتھ سپورٹس میں بھی حصہ لیتے ہیں۔
تیسری قسم
نالائق اسٹوڈنٹس جو بس کلاس میں نام کے بیٹھے ہوتے ہیں۔

انکا کام بس شغل لگانا۔ ہوٹنگ کرنا اور کبھی کبھی چھوٹے موٹے غنی بھائی بننا انکے پسندیدہ مشاغل میں آتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں سب سے بیسٹ کیٹگری کی۔ بظاہر دیکھا جائے تو کیٹگری اے سب سے بیسٹ ہے۔ نو ڈاؤٹ لیکن زندگی کی بھاگ دوڑ میں ذیادہ تر ٹھوکریں بھی یہیں کھاتے ہیں۔ اسکی کیا وجہ ہے میں بتاتا ہوں۔ کلاس کے ٹاپرز کو عموما نروس دیکھا گیا۔

کبھی پڑھائی میں اوپر جانے کی ٹینشن تو کبھی کلاس میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی ٹینشن۔ کبھی کوئز کمپیٹیشن میں بن بتلائے سلیکشن پر خود کو سر خرو کرنے کی ٹینشن تو کبھی کمپیٹینٹ ایگزیم میں ہار جانے کا دکھ لیے بیٹھے ہونا۔ کبھی کمرہ امتحان میں کرسی پر بیٹھ کر لبوں سے بڑبڑانا۔ تو کبھی اس ٹینشن سے ہوا ٹائیٹ ہو جانا نجانے پیپر کیسا آیا ہو گا۔

اسی ٹینشن میں انکا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے بچہ نروس ہو جانے کی بدولت کلاس ٹاپر ہونے کے باوجود صحیح پرفارم نہیں کر پاتا اور ڈی۔گریڈ ہو کر ہمت ہار بیٹھتا ہے۔
ایسی صورتحال کو کچھ ٹاپرز تو بہت اچھے سے ہینڈل کرتے ہیں۔ ایک دم فریش موڈ سے لیکن ذیادہ اچھے سے ہینڈل کرتے ہیں مڈل کلاس بچے جنھیں نہ تو اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ انھیں آتا کچھ نہیں۔

نہ اس بات کا لالچ ہوتا ہے کہ انھیں بورڈ میں پوزیشن لے کر اپنے اسکول و کالج کا نام روشن کرنا ہے۔ ہاں البتہ خواہش ضرور ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں نا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
سائیکولوجسٹ بھی اسی بات پہ اتفاق کرتے ہیں۔ نروس انسان کا دماغ صحیح طریقے سے اچھے سے کام نہیں کر پاتا۔ بالکل اسی طرح ایک مڈل کلاس بچہ زندگی کے نشیب و فراز کو ہنسی خوشی پار کر جاتا ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ٹاپرز ہونا اچھی بات نہیں۔ لیکن ٹاپرز ہونے کے ساتھ ساتھ انھیں پڑھائی سے ہٹ کر باقی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا چاہیے۔ کچھ نا کچھ ایسا ضرور کرنا چاہیے جس سے انکا دماغ ریفریش فیل کرے نہ کے ہر وقت بوریت میں ڈوبا رہے۔
کوشش کرتے رہنا چاہیے کیونکہ کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :