ڈیجیٹل ناسور

پیر 6 جولائی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

ناسور چاہے روحانی ہو یا جسمانی دونوں صورتوں میں خطرناک ہوتا ہے روحانی ناسور سے انسان اندرونی طور پر کھوکھلا ہو جاتا ہے جبکہ بیرونی ناسور سے انسان بیرونی طور پر ڈھ جاتا ہے فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ روحانی ناسور کی مرہم پٹی نہیں کی جا سکتی جبکہ بیرونی ناسور کی مرہم پٹی کر کے اسے بھرا جا سکتا ہے ان دونوں ناسور کا ایک فائدہ اور یہ ہوتا ہے کہ بیرونی و اندرونی ناسور دونوں صرف ایک ہی بندے کو گھائل کرتے ہیں جس سے کسی تیسرے بندے کا جانی نقصان نہیں ہوتا
بڑھتی ٹیکنالوجی اور آئے دن دنیا کی سائنسی ترقی نے انسانی دنیا میں ایک ڈیجیٹل ناسور پیدا کر دیا ہے جو صرف ایک بندے یا ایک گروپ کو نہیں بلکہ آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جس کی لپیٹ میں آئے دن ہر بچہ جوان یہاں تک کہ بزرگ بھی لپٹے جا رہے ہیں پرانی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم آجکل کے سرکردہ ڈیجیٹل ناسوروں کی بات کرتے ہیں جنھوں نے ہر طرف تہلکہ مچا رکھا ہے جس تہلکے سے نہ صرف ہماری یہ چلتی نسل اپنا آپا اپنی رسم و روایت کھو رہی ہے بلکہ آئے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا بےجا استعمال کر کے خود کو ذہنی طور پر مفلوج کر رہی ہے ان ڈیجیٹل ناسور میں سرفہرست  پب۔

(جاری ہے)

جی اور ٹک۔ٹاک آتے ہیں پب۔جی بظاہر ایک ویڈیو گیم ہے جس میں تھرو انٹرنیٹ سع کے قریب لوگ آپس میں کنیکٹ ہو کر ایک گیم کھیلتے ہیں جسکا مشن ایک دوسرے کو مار کر خود ونر بننا ہوتا ہے اب بظاہر دیکھا جائے تو یہ صرف ایک گیم تھی ایک اینٹرٹینمینٹ کے لئے بنائی گئی ایپلیکیشن تھی لیکن اس ایپلیکیشن کے لانچ ہوتے ہی لوگوں نے اسے کھیل کر ہار جیت کو اپنی انا کا مسئلہ بناتے ہوئے اسے نہ صرف اپنی ایگو برقرار رکھنے کے لئے کھیلنا شروع کر دیا بلکہ کئی کمظرفوں نے ہار کر خود کی بے عزتی محسوس کرتے ہوئے خودکشی جیسے سنگین جرم بھی کر ڈالے اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن دیکھا جائے تو کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے لیکن شاید اس ٹیکنالوجی کے کرموں کا صلہ ہے کہ ہم قوت برداشت کھو رہے ہیں اپنا آپا کھو رہے ہیں ان سب جھیل جھمیلوں کے پیش نظر کچھ دانشمند لوگوں نے ہمت بڑھائی اور اس پب۔

کی ناسور کو ختم کرنے کے لئے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی لیکن جیسا کہ ہمارے ہاں شروع سے ایک گھٹیا سوچ چلتی آ رہی ہے ایک گندہ نظام چلتا آ رہا ہے کہ ہم میجورٹی کی ریسپیکٹ کرتے ہیں پھر چاہے وہ میجورٹی غلط راہ غلط مؤقف پر ہی کیوں نہ ڈٹی ہوئی ہو چند ایک اپیل دائر ہونے پر کوئی ایکشن نہ لئے جانے پر کچھ اور صاحب ظرف نے اس کار خیر میں حصہ ڈالتے ہوئے اپیل دائر کرتے ہوئے اس پب۔

جی ناسور کو بند کرنے کی درخواست دائر کر دی جس کے پیش نظر چند دن پہلے پی۔ٹی۔اے(پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) نے عارضی طور پر اس پب۔جی کو پاکستان میں بین کر دیا جس کی وجوہات کچھ یوں تھی اگر بظاہر دیکھا جائے تو اس پب۔جی نے دوستوں یاروں کی محفلوں کو تالا لگا کر رکھ دیا تھا جسے دیکھو لڑکی ہو چاہے لٰڑکا ہر وقت لیب۔ٹاپ میں گھسا دیکھائی دیتا تھا نہ ماں کی فکر نہ باپ کی فکر بس دوسروں کو ہرانے اور خود کو ویجیتا کہلانے کے چکر میں ہمہ دم نظریں اسکرین پر جمائے رکھنا ہماری نوجوان نسل کا شیوا بن گیا تھا جس سے نہ صرف اسکرین سے خارج ہونے والی ڈیجیٹل شعاؤں کی بدولت آنکھوں کی بینائی ضائع ہونے کا خطرہ بڑھ رہا تھا بلکہ دوسری طرف ڈاکٹرز اور ماہر نفسیات کا کہنا تھا یہ گیم ہماری نوجوان نسل میں عدم برداشت کا باعث بن رہی ہے اور دوسرا اس گیم کے کھیلنے سے ہماری نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کا غلط اور بے جا بے تکا استعمال کرتے ہوئے اپنے قیمتی وقت کا ضیاع اور اپنی قدرتی صلاحیتوں کو غلط استعمال کر رہی ہے جس سے ہماری اس نوجوان نسل کا مستقبل گھاٹے میں جاتا دیکھائی دے رہا تھا چلو عارضی طور پر ہی سہی لیکن اس ناسور کو دبا کر ہماری حکومت نے اور پی۔

ٹی۔اے والوں نے بہت اچھا کارنامہ سرانجام دیا ہے
اب چلتے ہیں دوسرے ڈیجیٹل ناسور ٹک۔ٹاک کی جانب آج کے زمانے میں ٹک ٹاک ایپ سے کون واقف نہیں ہے؟ جسے دیکھو بس فیم لینے کے لئے کبھی کسی ہیرو کے بولے ڈائلاگز کی پیروڈی کر رہا ہے تو کوئی آدھ ننگا گھٹنا اور آدھ ننگی کمر دکھا کر اپنے حسن کی نمائش چند فولورز حاصل کرنے کے لئے کر رہا ہے کوئی اس ایپ کو اپنے نفس کی شانتی کے لئے ٹک۔

ٹاکر مجرا کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں کا ڈانس دیکھنے کے لئے کر رہا ہے تو کہیں کوئی اسے خود کو دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں استعمال کر رہا ہے کیونکہ یہ ایک انسانی فطرت ہے ہم جب کسی دوسرے کو اگے بڑھتا دیکھتے ہیں تو مارے حسد کے دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ آیا کہ اس نے ایسا کون سا طریقہ اپنایا جس سے یہ اس مقام تک پہنچا اور پھر اس طریقہ کو اپناتے ہوئے ہم بھی اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیو نکہ یہ ٹک۔

ٹاک صرف انٹرٹینمنٹ ایپ ہی نہیں بلکہ اس ایپ نے کئی ساری حسن کی مالک لڑکیوں اور ٹیلینٹڈ لڑکوں کو غربت سے نکال کر اوپری ماڈلنگ کی دنیا میں لانچ کیا ہے لیکن یہ ڈیجیٹل ناسور جہاں ایک طرف لوگوں کے کیریئر اوپر لے جا رہا ہے چاہے غلط طریقے سے ہی سہی وہیں دوسری جانب ہمارے معاشرے میں اس ایپ کی استعمال سے بے حیائی اپنے آب و تاب پہ چمک رہی ہے ہماری نوجوان نسل خود کو منظر عام پر رکھنے کے لئے ہماری مائیں بہنیں آدھ ننگا لباس پہن کر اپنی پنڈلیاں اور نجانے کیا کچھ دکھا کر خود کی دلی تسکین کرتی ہیں تا کہ لوگ ذیادہ سے ذیادہ انھیں دیکھیں اور پسند کریں اور انکی ایسی بے ہودہ ویڈیوز دیکھنے کے لئے انھیں فالو کریں جو کہ سرا سر بے حیائی کا مرکز بنی ہوئی ہے اور کچھ نہیں نجانے ہماری یہ نوجوان نسل جا کس طرف رہی ہے کیوں اپنی صلاحیتوں کا پازیٹو وے میں استعمال کرنے کی بجائے یہ غلط وے کر رہے ہیں اگر یہ نوجوان اپنا یہی ٹیلینٹ پڑھائی میں استعمال کریں یا خود کا کیریئر بنانے میں کریں تو ہمارے یہ چلتی نسل نجانے کتنے سی۔

ایس۔پی آفیسرز پیدا کر سکتی ہے لیکن شاید ہماری میجورٹی غلط رستہ پہ چل رہی ہے جبھی چند ایک کے صحیح سوچنے یا صحیح قدم اٹھانے پر بھی انکے منہ  بس لوگوں کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ آیا بڑا حاجی اپنا پتہ نہیں اور چلے آئے ہیں دوسروں کو سمجھانے بس یہی باتیں سن کر دلبرداشتہ ہو کر ایسے چند لوگ جو صحیح راستے پر چل رہے ہوتے ہیں وہ بھی بیٹھ جاتے ہیں کہ جب انھیں خود کو سدھارنا ہی نہیں تو ہم کیوں مفت میں انکی خوشامدیں کرتے پھریں جائیں بھاڑ میں ہمیں اپنی نوجوان نسل کو ان ناسوروں سے بچانا ہوگا میں حکومت وقت اور پی۔

ٹی۔اے والوں سے درخواست کروں گا کہ پب۔حی کی طرح ٹک۔ٹاک کو بھی پاکستان میں بین کر دیا جائے   تا کہ ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں اس عریاں پنتی سے بچ نکل کر خود کی عصمت و عفت بچا سکیں وگرنہ یہاں عزت بچانے والے ایک ہیں اور لوٹنے والے ننانوے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :