
ڈیجیٹل ناسور
پیر 6 جولائی 2020

سلیم ساقی
بڑھتی ٹیکنالوجی اور آئے دن دنیا کی سائنسی ترقی نے انسانی دنیا میں ایک ڈیجیٹل ناسور پیدا کر دیا ہے جو صرف ایک بندے یا ایک گروپ کو نہیں بلکہ آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جس کی لپیٹ میں آئے دن ہر بچہ جوان یہاں تک کہ بزرگ بھی لپٹے جا رہے ہیں پرانی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم آجکل کے سرکردہ ڈیجیٹل ناسوروں کی بات کرتے ہیں جنھوں نے ہر طرف تہلکہ مچا رکھا ہے جس تہلکے سے نہ صرف ہماری یہ چلتی نسل اپنا آپا اپنی رسم و روایت کھو رہی ہے بلکہ آئے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا بےجا استعمال کر کے خود کو ذہنی طور پر مفلوج کر رہی ہے ان ڈیجیٹل ناسور میں سرفہرست پب۔
(جاری ہے)
اب چلتے ہیں دوسرے ڈیجیٹل ناسور ٹک۔ٹاک کی جانب آج کے زمانے میں ٹک ٹاک ایپ سے کون واقف نہیں ہے؟ جسے دیکھو بس فیم لینے کے لئے کبھی کسی ہیرو کے بولے ڈائلاگز کی پیروڈی کر رہا ہے تو کوئی آدھ ننگا گھٹنا اور آدھ ننگی کمر دکھا کر اپنے حسن کی نمائش چند فولورز حاصل کرنے کے لئے کر رہا ہے کوئی اس ایپ کو اپنے نفس کی شانتی کے لئے ٹک۔ٹاکر مجرا کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں کا ڈانس دیکھنے کے لئے کر رہا ہے تو کہیں کوئی اسے خود کو دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں استعمال کر رہا ہے کیونکہ یہ ایک انسانی فطرت ہے ہم جب کسی دوسرے کو اگے بڑھتا دیکھتے ہیں تو مارے حسد کے دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ آیا کہ اس نے ایسا کون سا طریقہ اپنایا جس سے یہ اس مقام تک پہنچا اور پھر اس طریقہ کو اپناتے ہوئے ہم بھی اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیو نکہ یہ ٹک۔ٹاک صرف انٹرٹینمنٹ ایپ ہی نہیں بلکہ اس ایپ نے کئی ساری حسن کی مالک لڑکیوں اور ٹیلینٹڈ لڑکوں کو غربت سے نکال کر اوپری ماڈلنگ کی دنیا میں لانچ کیا ہے لیکن یہ ڈیجیٹل ناسور جہاں ایک طرف لوگوں کے کیریئر اوپر لے جا رہا ہے چاہے غلط طریقے سے ہی سہی وہیں دوسری جانب ہمارے معاشرے میں اس ایپ کی استعمال سے بے حیائی اپنے آب و تاب پہ چمک رہی ہے ہماری نوجوان نسل خود کو منظر عام پر رکھنے کے لئے ہماری مائیں بہنیں آدھ ننگا لباس پہن کر اپنی پنڈلیاں اور نجانے کیا کچھ دکھا کر خود کی دلی تسکین کرتی ہیں تا کہ لوگ ذیادہ سے ذیادہ انھیں دیکھیں اور پسند کریں اور انکی ایسی بے ہودہ ویڈیوز دیکھنے کے لئے انھیں فالو کریں جو کہ سرا سر بے حیائی کا مرکز بنی ہوئی ہے اور کچھ نہیں نجانے ہماری یہ نوجوان نسل جا کس طرف رہی ہے کیوں اپنی صلاحیتوں کا پازیٹو وے میں استعمال کرنے کی بجائے یہ غلط وے کر رہے ہیں اگر یہ نوجوان اپنا یہی ٹیلینٹ پڑھائی میں استعمال کریں یا خود کا کیریئر بنانے میں کریں تو ہمارے یہ چلتی نسل نجانے کتنے سی۔ایس۔پی آفیسرز پیدا کر سکتی ہے لیکن شاید ہماری میجورٹی غلط رستہ پہ چل رہی ہے جبھی چند ایک کے صحیح سوچنے یا صحیح قدم اٹھانے پر بھی انکے منہ بس لوگوں کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ آیا بڑا حاجی اپنا پتہ نہیں اور چلے آئے ہیں دوسروں کو سمجھانے بس یہی باتیں سن کر دلبرداشتہ ہو کر ایسے چند لوگ جو صحیح راستے پر چل رہے ہوتے ہیں وہ بھی بیٹھ جاتے ہیں کہ جب انھیں خود کو سدھارنا ہی نہیں تو ہم کیوں مفت میں انکی خوشامدیں کرتے پھریں جائیں بھاڑ میں ہمیں اپنی نوجوان نسل کو ان ناسوروں سے بچانا ہوگا میں حکومت وقت اور پی۔ٹی۔اے والوں سے درخواست کروں گا کہ پب۔حی کی طرح ٹک۔ٹاک کو بھی پاکستان میں بین کر دیا جائے تا کہ ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں اس عریاں پنتی سے بچ نکل کر خود کی عصمت و عفت بچا سکیں وگرنہ یہاں عزت بچانے والے ایک ہیں اور لوٹنے والے ننانوے۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلیم ساقی کے کالمز
-
افزائش نسل کی بڑھوتری کے ثمرات و نقصانات
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
عشق مجازی سے عشق حقیقی
پیر 13 ستمبر 2021
-
''ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے''
منگل 24 اگست 2021
-
تھرڈ کلاسیے ایکٹرز
منگل 1 جون 2021
-
''جسد خاکی یہ ستم نہیں اچھا''
منگل 4 مئی 2021
-
لیبرز ڈے
ہفتہ 1 مئی 2021
-
رمضان کو بخشش کا فرمان کیسے بنائیں؟
منگل 27 اپریل 2021
-
کہاں کھو گیا وہ برگد کا پیڑ پرانا
ہفتہ 24 اپریل 2021
سلیم ساقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.