مشکلوں میں گھری بنت حوا

پیر 1 مارچ 2021

Saleem Saqi

سلیم ساقی

ضروری نہیں کہ رات دیر پا سڑک پر چلنے والی ہر لڑکی بد چلن ہو زندگی میں کچھ کٹھن موڑ ایسے بھی آتے ہیں جب گھر میں ایک وقت کی روٹی پکانے کا سامان بھی میسر نہیں ہوتا قسمت کچھ لوگوں کو ایسی ٹھوکریں بھی مارتی ہے جب بوڑھے ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کے لئے گھر کی بڑی بیٹی کو گھر سے باہر کمانے کی غرض سے نکلنا پڑتا ہے
جیسا کہ پرانی کہاوت ہے ضرورت پڑنے پر انسان گدھے کو بھی باپ مان لیتا ہے بالکل اسی طرح ضرورت پڑنے پر ایک کمسن کلی ڈیوو کنڈکٹر بھی بن سکتی ہے ایسے میں بھوکے کتوں کی طرح ان معصوم لڑکیوں کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنا بالکل اس کتے کی طرح جو قصاب کی دوکان پر سارا دن اس آس پر زبان لٹکا کر بیٹھا رہتا ہے کہ شاید ابھی قصاب اسے کوئی بوٹی یا ہڈی پھینک دے اور اسکی پیٹ پوجا ہو جائے لیکن شام کو تھک ہار کر منہ کی کھا کر گھر کو لوٹ جاتا ہے اور صبح پھر وہی آس لے کر اسی جگہ آ بیٹھتا ہے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک قصاب اس پر لاٹھی چارج کر کے اسے وہاں سے بھگا نہ دے بالکل اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی کچھ کتے انسانوں کو روپ دھارے پھر رہے ہیں
جو صبح شام کسی چوراہے پہ کسی سگنل پہ کسی گرلز کالج کے سامنے کسی بس اسٹینڈ پر یا پھر کسی ایسے گھر کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جہاں مردوں کا بسیرا نہ ہو
ہمارے معاشرے کا بھی اک عجیب و غریب المیہ ہے ایک طرف جہاں مرد کو عورت کا محافظ گنا جاتا ہے وہیں دوسری طرف وہی مرد اسے نوچنے کو دوڑتا ہے خدا کی قدرت ہے کہ کسی کو بیٹے دے دے کسی کو بیٹیاں دے دے یا دونوں عطا کر دے لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے گھر جہاں بیٹوں کی کمی ہو بجائے اس کے کہ اس گھر کی حفاظت کا بیڑا اٹھائیں ہم خود ہی اس گھر کی دیواریں پھاند کر اس گھر کی عزت و آبرو کو نیلام کرنے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں
خیر آجکل تو محرم محافظوں کے ہاتھ بھی عورت کی عزت محفوظ نہیں رہی باقی لوگوں کو کیا کہیں ابھی حال ہی میں ایک خبر سننے کو ملی کہ ایک ماں نے کسی غیر آدمی کے ساتھ مل کر اس درندے کے ہاتھوں اپنی چار ماہ کی بچی کو زیادتی کا نشانہ بنوا کر دفن کر دیا اور سارے ثبوت مٹا دیئے ایک اور جگہ دل دہلا دینے والی خبر آنکھوں سے گزری ایک بھائی نے اپنی بہن کے جسم سے اپنی حوس کی پیاس کو مٹایا
ایسے کئی سارے قصے ہیں جنہیں لکھنے اور پڑھنے پہ آؤں تو آنکھیں خون کے آنسو بہانے لگ جائیں عورت جن ہاتھوں میں خود کو محفوظ سمجھتی ہے اگر وہی ہاتھ اسکے جسم پہ حوس کو پورا کرنے کی غرض سے پھرتے نظر آئیں یا وہ آنکھیں جن میں وہ اپنی معصومیت کی مورت دیکھتی ہے اگر وہی آنکھیں اس کے جسم کے ابھاروں کو ناپتی پکڑی جائیں ایسے میں عورت کے پاس سوائے اس کے کہ وہ زہر کی ہڑیا کھا کر جان دے دے اور کوئی چارہ نہیں بچتا
ہم عموما عورت زات کو کمزور گردانتے ہیں مگر ایسا بالکل بھی نہیں ہے جس میں مرد کا تھپڑ سہہ کر چپ ہو جانے کی ہمت ہو حوصلہ ہو کیا وہ کیسے اور کیونکر کمزور ہو سکتی ہے؟ کمزور نہیں بلکہ وہ اسی مرد کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے لب سی لیتی ہے اگر عورت زات اپنے لبوں کی تجوری کھول دے تو کوئی مرد آنکھ اٹھا کر زمین پر نہ چل سکے۔

(جاری ہے)

اسی کی کوک سے جنم لے کر اسی کے خون سے خوراک پا کر اسی کی جوانی سے کھیل کر اسے کھنڈر بنا کر آخر کو اسے کمزور کہنے والے مردوں پہ چھییییییی ہے ایسے مرد مرد کہلوانے کے لائق نہیں۔
عورت پہ ظلم صرف جنسی صورت میں ہی نہیں ہوتا کہ اس کے جسم سے جنسی تسکین کو پورا کر کے چھوڑ دیا جائے تبھی عورت کے ساتھ زیادتی ہو گی نہیں بالکل نہیں عورت کے ساتھ کیئے گئے کئی ظلم ایسے بھی ہیں جو بظاہر تو چھوٹے ہیں مگر حقیقتا بہت بڑے اور سنگین ہیں۔


گھریلو تنگ نظری کا شکار ہونا بھی عورت کو بدلنے اور غلط قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتا ہے جو چیز اسے محرم رشتوں سے نہیں مل پاتی پھر وہ وہی چیز غیر محرم رشتوں میں تلاشنے کو نکل پڑتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ جو غیر محرم اسکے پلے پڑا وہ اسے سمجھا بجھا کر واپس آپ کے پاس بھیج دے نہیں ایسا نہیں آتا پھر کیا کچھ ہو سکتا ہے یہ آپ میں ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں جبھی تو کہا جاتا ہے کہ اپنے بچوں خصوصا بچیوں کو اپنے ذیادہ سے ذیادہ قریب رکھیں اتنا قریب کہ وہ آپ سے دنیا جہاں کے ہر ٹاپک کو ڈسکس کر سکیں انھیں خود میں اس قدر الجھا کے رکھیں کہ انھیں کسی تیسرے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔


یہاں قصور صرف مرد کا نہیں یہاں قصور صرف عورت کا نہیں یہاں قصور صرف قانون کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے ہم سب مطلب معاشرہ سب سے پہلا نظروں کا وار وہی سے ہونا شروع ہو گیا جب عورت کو نقاب کو اس وجہ سے اوڑھنا چھوڑ دیا کہ اس سے اسکا دم گھٹتا ہے جب بنا پردےعورت نے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھا تو حوس کے پجاریوں نے اپنی حوس کی ماری آنکھوں کو اس بےنقاب پہ فکس کر دیا ممکن تھا کہ اگر اس نادان لڑکی سے جانے انجان میں کچھ غلطی ہو بھی گئی تو ہم مرد اپنی آنکھیں نیچی کر لیتے یا ہمارے معاشرے کا فرض تھا کہ ایسے حوس کے مریضوں کو غیرت کے چار پانچ انجیکشن لگاتے مگر ہماری نظر میں عورت زات صرف وہی ہے جو ہمارے گھر میں پائی جاتی ہے باقی تمام صرف ایک گوشت کا ٹکڑا ہیں جنہیں بھوک لگنے پر کھایا جائے گا ذیادہ کچھ نہیں یہ بات صرف یہیں تک نہیں آ کر نہیں رک جاتی کہ معاشرے نے قدم نہیں اٹھایا تو اور اسکا کوئی حل نہیں یا اب اسے کوئی روک نہیں سکتا نہیں ایسا نہیں ہے ہمارے ہاں ایک قانون نامی بلا بھی پائی جاتی ہے جو کرنے پہ آئے تو راتوں رات جھوٹ کی پوٹلی کو سچ کی گرہ لگا دیں اور سچ کی مالا کو توڑ کر زار زار کر کے جھوٹ کے دریا میں بہا دیں لیکن وہ تنخواہ تھوڑی نا ہم عام عوام کی بھلائی کے لئے لیتے ہیں وہ تو اونچی کرسی پر اپنا اور اپنے آنے والی نسل کا بھلا کرنے کے لئے بیٹھے ہیں نہ کہ ہمارا ایسے میں ہمارے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے خود کو سدھارنے کا اگر آپ سدھر جائیں گے تو جیسے خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے بالکل اسی طرح لوگ آپ کو دیکھ کر سیدھی راہ اپنائیں گے
میری ان تمام تر باتوں سے اکتفا کرنے کے بعد کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور جنم لے گا کہ جو خواتین جسم فروشی کرتی ہیں انکا کیا؟ تو ان احباب کے لئے ایک چھوٹا سا جملہ عرض کیئے دیتا ہوں سمجھ لیجئے گا کہ اگر تم عورت کا تانگہ چلانے کی اجازت نہیں دو گے تو ایسے میں کوٹھے ضرور چلیں(آباد) گے۔

۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :