ایم۔اے پاس مونگ پھلی والا

منگل 5 فروری 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

موسم سرما کی سردی ہر انسان پر اثر انداز ہورہی تھی میں اور میرے دوست شام کے وقت سردی انجوائے کررہے تھے کہ ایک دوست کہنے لگا کہ اس سردی کے موسم میں مونگ پھلی کھانے کو دل کر رہا ہے دوسرے دوست اور میں نے حامی بھری تو ہم مونگ پھلی کی تلاش میں چل پڑے ،کچھ دورہی گئے تھے کہ ایک ریڑھی والا نظر آیا جس نے اپنی ریڑھی پرخشک میوہ جات، مونگ پھلیاں سجائی ہوئی تھیں اور ایک چھوٹی سی مٹی کی بھٹی جس میں سے دھواں بھی نکل رہا تھا مونگ پھلیوں کے دامن میں رکھی ہوئی تھی تاکہ گرم مونگ پھلیاں لوگوں کو دے سکے اور لوگ سردی کے موسم میں گرم مونگ پھلیوں سے لطف اندوز ہوسکیں ۔

ہم بھی اس ریڑھی والے کے پاس جاکر ایک بنچ پر بیٹھ گئے اور مونگ پھلیاں آرڈر کی ۔ایک نوجوان جو اس مونگ پھلی کی ریڑھی پر کھڑا مونگ پھلیاں فروخت کر رہا تھا اُس نے ہمیں گرم گرم مونگ پھلیاں پیش کیں اور اپنا کام کرنے لگا۔

(جاری ہے)

ہم مونگ پھلیوں سے لطف اندوز ہورہے تھے اور آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ پچھلی حکومت کیسی تھی اور موجودہ حکومت کیسی ہے؟ نوجوانوں کیلئے روزگار نہیں ہے؟روزگار کے مواقع نہیں ہیں ؟جو بھی حکومت آتی ہے وہ نوجوانوں کو سبز باغ دکھا کر اُن کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے طرح طرح کے وعدے کرتی ہے جنکو بعد میں پورا نہیں کیا جاتا اور نوجوانوں کو بے یارومددگار اور بے آسرا چھوڑ دیا جاتا ہے ؟

ہم ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ مونگ پھلی والا بھی ہماری باتوں میں دلچسپی لیتا ہوا ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا”ہاں یار آپ لوگ صحیح کہتے ہو “جب الیکشن قریب ہوتے ہیں تو نمائندے ہمیں کہتے ہیں کہ ہم آپ کا یہ کام کروادیں گے ،ہم آپ کا وہ کام کروادیں گے، ہم آپ کے شہر کو پیرس بنا دیں گے، ہم آپ کے شہر میں میڈیکل کالج ،یونیورسٹیاں اور ہسپتال بنا دیں گے ،آپ کے شہر میں سڑکوں کا جال بچھادیں گے ۔

وہ نوجوان بولتا چلاگیا ۔ہم اس کے منہ کی طرف دیکھ رہے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ اس کو کیا ہوگیاہے۔؟میں نے ہمت کر کے پوچھا بھائی کیا ہوا کہنے لگا کچھ نہیں کچھ نہیں یار بس میں ایسے ہی کچھ جذباتی ہوگیا آپ کی باتیں سُن کر لیکن یہ سب حقیقت ہی تو ہے ۔
میں نے پوچھا یار آپ ریڑھی لگاتے ہو پڑھائی نہیں کی کیا۔۔۔؟؟توکہنے لگا بھائی میں پڑھ چکا ہوں ،ایم۔

اے انگریزی کیا ہوا ہے ۔اُس کا یہ کہنا تھا کہ ہم دوست حیران ہو کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے ۔اُس مونگ پھلی والے سے ہم نے پھر پوچھا کہ آپ کو کوئی نوکری نہیں ملی تو کہنے لگا یار دو سال پہلے میں نے ایم۔ اے انگریزی کیا تھا ابھی تک نوکری نہیں ملی اُلٹا میں قرض تلے دب گیا تھا ۔آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کسی بھی جاب پر اپلائی کرنے کیلئے500تو معمولی بات ہے 1000یا1500روپے بھی بنک میں چالان جمع کرانے پڑجاتے ہیں اور پھر اگر ٹیسٹ دوسرے شہر میں ہو تو دوسرے شہر جانے کیلئے جیب میں ”جانے کا کرایہ“”کھانا پینا“ اور”واپسی کا کرایہ“ ہوناچاہیے یعنی ایک نوکری کے لئے اگر آپ اپلائی کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم 2سے 3ہزار روپے آپ کی جیب میں ہونے چاہیے ۔

ایک جگہ پرائیویٹ نوکری ملی توتنخواہ6ہزارروپے تھی اور ڈیوٹی صبح9بجے سے شام 7بجے تک تھی ۔اس کے بعد میں کوئی اور نوکری بھی نہیں کر سکتا تھا ۔گھر کے اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ 6ہزار روپے میں پورے نہیں ہوتے تھے ۔اُلٹا مجھ پر 70ہزار روپے کا قرض بھی چڑھ گیا پھر میں نے مزید قرض سے بچنے اور اپنے آپ کو پریشانیوں سے نکالنے کیلئے ہمت اور حوصلہ جمع کیا اورریڑھی لگالی ۔

اس ریڑھی پر میں گرمیوں میں جوس اورسردیوں میں مونگ پھلی اور خشک میوہ جات لگا کر بیچتا ہوں اللہ کا شکر ہے دو وقت کی روٹی کھالیتے ہیں بس میں اب کسی نوکری کیلئے اپلائی نہیں کرتا۔
کچھ اور گاہک آئے تو وہ مونگ پھلی والا انہیں مونگ پھلیاں دینے لگا ہم اُسے سلام کرنے کے بعد وہاں سے چل پڑے ۔میں اپنے دوستوں کو کہنے لگا کہ یا ر کیا ہمارے ماں باپ دن رات محنت کر کے ہمیں اعلیٰ تعلیم اسی لئے دلواتے ہیں کہ ہم ریڑھی لگا لیں یا مزدوری کریں ۔

ماں باپ تو اس لئے پڑھاتے ہیں کہ ہمارا بچہ اپنی زندگی میں ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں وہ اور اسکا مستقبل کامیابی و کامرانی سے منور ہو۔
اس ساری صورتحال کی ذمہ دار حکومت اور اس کی غلط پالیسیاں ہیں کیا اس ملک میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی کوئی اہمیت نہیں ؟کیا پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے اچھا روزگار انکا حق نہیں ؟بے روزگار نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی شرح حکومت کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔

یہ ایک ایم۔ اے پاس مونگ پھلی واالا نہیں بلکہ اس جیسے کئی پڑھے لکھے نوجوان ہمارے معاشرے کی ایسی مثال بن گئے ہیں جن کو دیکھ کر بڑی تعدا د میں لوگ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواتے اور انہیں سکول وتعلیم سے دور ہی رکھتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر جب ایسے نوجوانوں نے ریڑھیاں لگا کر مزدوری ہی کرنی ہیں تو پھر ہم اپنے بچوں کو کیوں پڑھائیں ۔؟جب منزل ہی تاریک ہو تو راہی رستے میں ہی بھٹک کر رہ جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو وہ سمجھ عطا کرے کہ وہ اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ہم ایسے ،وہ ویسے،وہ ایسے ،ہم ویسے کر کے 5سال گزارنے کی بجائے اس ملک کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہوں اور حقیقی معنوں میں اس ملک کی ترقی کیلئے کام کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :