ناانصافی کا سمندر

ہفتہ 23 فروری 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

کوئی بھی ملک ہو اس ملک میں رہنے والے لوگ اپنے آپ کو اس وقت تک محفوظ نہیں سمجھتے جب تک ریاست انہیں محفوظ رہنے کا حق فراہم نہیں کرتی ۔اب اس لفظ ”محفوظ“کا اطلاق ہر طبقے پر ہوتا ہے چاہے وہ طبقہ غریب ہو مڈل کلاس ہو یا امیر،سب ہی یہ چاہتے ہیں کہ وہ خود بھی محفوظ رہیں اور انکی فیملی بھی محفوظ رہے ۔کوئی بھی ایسا نہیں چاہے گا کہ وہ خود بھی غیر محفوظ رہے اور اسکی فیملی بھی غیر محفوظ رہے ۔

اب محفوظ رہنے کیلئے ہمیں اپنے اور دوسروں کیلئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں اب انصاف کے تقاضے کیا ہیں یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے انصاف کا تقاضہ ایک چھوٹی سے مثال سے سمجھاتا ہوں۔ آپ کے بچے اور کسی اور کے بچے کے درمیان کسی معمولی سی بات پر جھگڑا ہوجاتا ہے آپ اور دوسرے بچے کے وار ث آمنے سامنے آجاتے ہیں بات چلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کا بچہ قصور وار تھا اب انصاف کا تقاضہ یہاں پر لاگو ہوتا ہے اور اسطرح لاگو ہوتا ہے کہ آپ اس بات سے متفق ہوں کے آپ کے بچے کو سزا ملنی چاہیے کیونکہ اُ س نے ناانصافی کی ہے اور ایسا ماحول بنایا ہے کہ جس سے دوسرے کا بچہ غیر محفوظ ہوا ۔

(جاری ہے)

اور اگر آپ نے انصاف کے تقاضے کو پورا نہیں کیا یا اسے کچھ اہمیت نہیں دی تو آپ اپنے بچے کی غلطی ہونے کے باوجود دوسرے بچے کا قصو ر نکالیں گے اور اپنے بچے کا ذہن اس طرح سے بنائیں گے کہ اگر وہ پھر سے اس طرح کسی اور بچے سے جھگڑا کرے گا تو اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔
اب بچے کا ذہن مکمل طور پر تیار ہوگیا کہ وہ کسی سے بھی جھگڑا کرے کسی کو مارے پیٹے کیونکہ اُس کے والدین نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرنے تو وہ بچہ لڑائی جھگڑے فساد اور ماحول میں بگاڑ کی حدیں پار کرتا جائے گا۔

مشہور کہاوت ہے ”قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے“ اب اس باپ نے ناانصافی کا ایک قطرہ خود کو بنا ڈالا اسی طرح ہمارے معاشرے میں کتنے ہی ناانصافی کے قطرے اکٹھے ہو ہو کر ناانصافی کا سمندر بنا رہے ہیں ۔یہ ناانصافی اچھے سے اچھے معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے آج اگر ہم اپنے ملک کی بات کریں تو اسی طرح کی صورتحال ہے کوئی اس ملک میں ڈیم بنائے یا نہ بنائے ناانصافی اس ملک میں بہت بڑے بڑے ڈیم بنا چکی ہے ۔

کہیں زندگی جنم لیتی ہے تو ناانصافی کی جاتی ہے،کہیں زندگی پروان چڑھتی ہے تو ناانصافی کی جاتی ہے ،کہیں کہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ زندگی کے آغاز سے پہلے ہی ناانصافی جنم لے لیتی ہے پھر زندگی کے اختتام اور اختتام کے بعد بھی گلے کا طوق بن کر رہ جاتی ہے۔ کاش اُس بچے کے باپ نے انصاف کے تقاضے پورے کیے ہوتے کاش ناانصافی کی پہلی سیڑھی پر ہی انصاف ہوا ہوتا۔

کاش حوا کی بیٹی کی عزت تار تار کرنے والوں کو سز ا ملی ہوتی،کاش نونہالوں ،معصوم کلیوں کا خون بہانے والوں کو سزا ملی ہوتی ،کاش ماؤں کے کلیجے چیرنے والوں کو سزا ملی ہوتی ،کاش اس ملک کے غدا روں کو سزا ملی ہوتی ۔مگر کاش۔۔۔۔کاش ایسا ہوتا۔۔۔۔
اگر کسی گھر میں بلب لگا ہوا اور وہ خراب ہے تو کبھی بھی اُس گھر کو روشن نہیں کرے گااسی طرح ہمارے ملک میں قانون ہے لیکن اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہے تو یہ قانون کبھی بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کردار ادا نہیں کرے گا۔

ناانصافی کا سمندرہماری اخلاقی قدریں ،ہماری ثقافت ،ہمارا بھائی چارہ ،ہماری انسانیت ،ہماری ہمدردی سب کچھ بہا کے لے جانے کو ٹھاٹھے ماررہا ہے خدارا انصاف کے تقاضے پورے کریں دین کو صحیح معنوں میں سمجھیں اور اس پر عمل کریں اللہ پاک ہمیں حق و سچ کا ساتھ دینے اور ہمارے حکمرانوں کو اپنے اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :