اٹھ کے بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

جمعرات 4 جون 2020

Sara Rahman

سارہ رحمان

عاصند فاطمی کے انتقال کے بعد خلافت فاطمیہ ختم ہوئ اور سلطنت ایوبیہ کی بنیاد رکھی گئ ۔۔۔یہ وہ دور تھا جب صلیبی ہر طرف سازشوں کا جال بن رہے تھے ۔۔نورالدین زنگی کو زہر دے کر اس کے کم سن بیٹےکو اپنے جال میں مکمل طورپر پھنسا کر  مرکزی حکومت کمزور  کر کے صلیبی  اپنا تسلط قائم کرنا چاہتےتھے ۔۔ایوبی نے نہ صرف اندرونی سازشوں کا خاتمہ کیا ۔

۔بلکہ صلیبیوں کی بھی تمام تر سازشوں کا سر قلم کیا۔۔
یہ وہ دور تھا جب صلیبی بیت المقدس پر قابض تھے ۔۔اور مسلمان بے حد اذیت بھری زندگی گزار رہے تھے ۔۔۔۔
صلاح الدین ایوبی نے خلافت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئےکہا تھا ۔۔۔اگر کوئ خود کو اس ذمہ داری کے قابل سمجھتا ہے ۔۔تو وہ سامنے آئے خود کو ثابت کرے ۔

(جاری ہے)

۔۔ایوبی کی یہ بات سن کر بھرے مجمعے میں کسی کو  کچھ کہنے اور بولنے کی ہمت باقی نہ رہی تھی ۔

۔۔پھرآہستہ آہستہ اس مرد مومن کے غداروں کو چن چن کر گردنیں اڑانے کا حکم دیا تھا ۔۔۔انٹیلی جنس کا مضبوط اور طاقتور نظام اسی مرد مجاہد نے متعارف کروایا تھا ۔۔۔
پھر کیا ہوا صرف ایک مرد مجاہد کےدلیرانہ اقدام کی بدولت نہ صرف اسماعیلیوں کا خاتمہ ہوا بلکہ ہر چھوٹی بڑی اینٹی اسلام سازش کا خاتمہ ہوا ۔۔تیسری صلیبی جنگ کے خاتمے کے بعد مسمانوں نے دوبارہ بیت المقدس کو آزاد کرایا تھا۔

۔۔
یہ ہمارے اجداد ہمارے اسلاف تھے ۔۔۔یہ ہمارا گزرا ہوا ماضی ہے ۔۔۔
آج پھر ہم مسلمان بکھر چکے ہیں ۔۔۔اور دنیا کے ہر کونے میں ذلیل و رسوا ہیں ۔۔۔اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی ایوبی کی آمد کا انتظار کر رہےہیں ۔۔۔۔
حالانکہ ہمارا مذہب ہمارا دین کیا کہتا ہے ۔۔۔۔؟؟؟
یہ ہم بھول چکے ہیں ۔۔۔ہم جس جمہوری نظام کے بوجھ تلے دبے ہیں ۔۔اس نظام کے اندر کسی بھی معجزے کا انتظار کسی بھی  ایوبی کا انتظار کرنا بیکار ہے ۔

۔۔
اندھے نظام نے دیکھنے سوچنے اور سمجھنے تک کی حس چھین لی ہے ۔۔۔۔
اگرواقعی ہم عروج اوربلندی چاہتے ہیں اپنا کھویا ہوا مقام چاہتے ہیں ۔۔۔تو پھر اس پورے نظام کو لپیٹ کر بزور طاقت ایک نیا نظام متعارف کرانا ہوگا ۔۔۔۔
بزور طاقت ہر عہدے دار کو جو اندھے سسٹم کی بدولت لایا گیا ہے ۔۔۔کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا ۔
اسلام کہتا ہے اہل رائے اہل علم اور باشعور افراد کو رائے کا حق دو ۔

۔۔لیکن ہمارے اس جمہوری سسٹم میں ایک چرسی ایک پاگل ایک سود خورایک چور ایک کرپٹ اور ایک اہل علم شخص کا ووٹ برابر ہے ۔۔تو کیا ہوگا ۔۔۔۔۔؟اہل علم تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔۔۔تو کیا ووٹ اہل علم باشعور افراد  کے پاس آئے گا ۔۔۔۔
یا پھر اقتدار انہیں نشئ چرسی سود خور اور کرپٹ لوگوں کے پاس ۔۔۔
یاد رکھیں اللہ تب تک کسی قوم پر عذاب مسلط نہیں کرتے جب تک اس قوم کے افراد جو استطاعت بھی رکھتے ہوں ظلم اور برائ کو روکنے اور ختم کرنے کی پھر بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر ہوں کہ کوئ آئے گا اور ہماری قسمت بدلے گا ۔

۔۔
نظام اور سسٹم تب بہتر ہوگا جب اقتدار با شعور ایماندار دلیر اور اہل علم کے ہاتھ میں آئے گا ۔۔۔یہ سسٹم بدلنا ہوگا چاہے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔۔۔
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :