ہماری معیشت مستحکم کیوں نہیں، قصور وار کون

اتوار 22 مارچ 2020

Sara Rahman

سارہ رحمان

وطن عزیز کو وجود میں آئے 72 سال ہوگئے۔۔۔۔لیکن ہماری معیشت مستحکم نہ ہو سکی۔۔۔وطن عزیز قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔۔۔
قصور وار کون۔۔۔۔؟کیا صرف حکومتیں قصوروار ہیں۔۔۔یا ہم بھی اس سب میں برابر کے حصہ دار ہیں۔۔۔۔؟؟ 
آئیے دیکھتے ہیں۔۔۔۔وطن عزیز معرض وجود میں آنے کے چار سال تک ایک نوزائیدہ بچے کی طرح پھلتا پھولتا رہا۔

۔۔اپنی مدد آپ کے تحت جس نظریے کے تحت معرض وجود میں آیا تھا۔۔اسی کے سہارے پروان چڑھتا رہا کسی سے قرض تک لینے کی نوبت نہ آئی۔۔
لیکن پھر کیا ہوا۔۔۔ قیام پاکستان کے چار سال بعد امریکی استعمار کا نمائندہ،عالمی بینک آپہنچا۔ اس نے ترغیبات، ”لارے لپے“ دے کر اور سہانے خواب دکھا کر پاکستانی حکومت کو ابھارا کہ وہ قرضہ لے۔

(جاری ہے)

پاکستانی حکومت دام میں پھنس گئی۔

 
چنانچہ عالمی بینک پاکستان کو ساڑھے تین کروڑ ڈالر بطور قرض دینے میں کامیاب ہو گیا۔ اس قرضے سے پاک ریلوے کا ایک منصوبہ شروع ہوا۔۔۔یہیں سے پاکستان کے مسائل کا آغاز ہوا۔۔۔۔جس پاکستان نے اپنی مدد آپ کے تحت مستحکم اور مضبوط بننا تھا۔۔۔اس کو سوچی سمجھی سیکم کے تحت قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کا آغاز ہوا۔۔۔اس سودی لعنتی بینکاری نظام نے پوری دنیا کو آکٹوپس کی طرح جکڑا ہوا ہے۔

۔۔۔ہم عوام کو اس بات سے آگاہ ہو ہی جانا چاہیئے کہ کسی بھی ملک کو ان لیئے گئے قرضوں سے کوء فائدہ نہیں ہوتا ہے۔۔اور اس بات سے بھی آگاہ ہونا چاہیئے کہ آء ایم ایف اور ورلڈ بینک امریکہ کیلئے نہیں بنے۔۔۔
اگر آسان لفظوں میں سمجھایا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ اس لیئے بنے ہیں۔۔۔کہ پاکستان کا ایک شہری جو بجلی کا بل ادا کرتا ہے وہ IPP کو جاتا ہے۔

۔۔اور IPP نے جس بینک سے قرض لیا ہوتا ہے۔۔IPP یہ پیسے اس بینک کو دے دیتا ہے اور وہ بینک مالا مال ہوجاتا ہے۔۔۔منصوبہ بندی یہ کی جاتی ہے کہ لوگوں کی جیب سے کتنا پیسہ نکالنا ہے۔۔اور کس بینک کو مالا مال کرنا ہے۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ورلڈ بینک ممالک کو قرضہ دینے کیلئے کیوں مرا جارہا ہے۔۔قرضہ دینے میں ان کا کون سا مفاد چھپا ہوا ہے تو جان لیجئے۔

۔۔۔
مقروض ممالک کو مزید قرضہ نہ دیا جائے تو سارے کاروبار منجمد ہو جائیں۔۔۔جب کاوبار ہی بند ہو جائیں گے آمدن کا کوء راستہ نہیں ہوگا تو ان کا پہلے والا قرضہ سود سمیت واپس کیسے ہوگا۔۔۔؟
ہمارا المیہ یہ ہے کہ اپنی مدد آپ کے تحت ہم نے کچھ نہیں کرنا۔۔۔۔اشرافیہ جو جونک کی طرح پاکستان کو چمٹ کر رہ گئی ہے۔۔۔وہ کوئی ایسی پالیسی بنانے ہی نہیں دیتی۔

۔جس سے عوام کو ملک کو فائدہ ہو قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا ملے۔۔۔اگر بیرونی قرضے لینا بند کر دیئے جائیں تو اشرافیہ کا پیٹ کون بھرے گا۔۔۔۔؟؟؟
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرضہ لیا کیسے جاتا ہے۔۔؟
قرضہ لیتے وقت نہ عوام سے پوچھا جاتا ہے نہ اسمبلی سے پوچھا جاتا۔۔EAD کا سیکرٹری آئی ایم ایف سے بات کر کے قرضہ سائن کر لیتا ہے۔۔۔ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا اور ہم راتوں رات مقروض ہوجاتے ہیں۔

۔۔70 سالوں سے یہی چلتا آیا ہے اور چل رہا ہے۔۔۔
ہم عوام جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ذلیل ہوئے جاتے ہیں۔۔۔حقائق اور سچائی سے دور فرسودہ اور عجیب و غریب باتوں پر آگ بگولہ ہو کر پاکستان کو کوستے رہتے ہیں۔۔۔ قصور وار صرف حکومت نہیں۔۔ہم بھی برابر کے قصوروار ہیں
72 سالوں سے خون چوسنے والے سسٹم کے خلاف بولیں بھی کیسے۔۔۔ہم کچھ جانتے ہی نہیں ہیں۔

۔بلکہ جاننا ہی نہیں چاہتے۔۔۔
خدارا ایک قوم بن کر سوچیں۔۔۔سودی نظام اور خون پینے والے بھیڑیوں سے نجات ہم نے خود حاصل کرنی ہے۔۔۔جذباتیت اور فضول باتوں پر تنقید کرنے سے بہتر ہے اپنی سوچ کو بدلیں عملی قدم اٹھائیں۔۔۔۔۔۔اور ملک بچائیں۔۔۔
کیونکہ یہ سب واجب ہے ہم پر۔۔۔پاکستان ہم سب کا ہے۔۔۔اور ہم نے ہی اس کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :