جناب طارق عزیز

پیر 6 جولائی 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

مجھے یا د ہے میں پی ٹی وی لاہور سینٹر میں طارق عزیز صاحب سے جناب حفیظ تائب کے ساتھ ملا۔بہت دیر باتیں ہوتی رہیں اور میں سنتا رہا۔جناب حفیظ تائب کی شخصیت میں عجیب کشش تھی ۔لوگ اپنی ذاتی اور گھریلو مسائل پر مبنیباتیں ان سے بے تکلفی سے کر لیتے تھے اور ایسی ہی باتیں طارق صاحب بھی ان سے کرتے چلے جا رہے تھے۔کسی بھی شعبے سے منسلک ہوتے ہوئے بہت کم لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ آخری وقت تک وہ اپنی اسی پہچان کے ساتھ زندہ رہیں۔

نیلام گھر، طارق عزیز شو اور پھر بزم طارق عزیز کا طویل اور مسلسل سفر ایک طلسماتی دائرہ محسوس ہوتا ہے جس نے ہماری تین نسلوں کو اپنے حصار میں لئے رکھا۔28اپریل1936 کو جالندھر سے شروع ہونے والا سفر فٹ پاتھوں،چوراہوں،محفلوں سے ہوتا ہواپارلیمنٹ کی راہداریوں تک بھی پہنچا اور17 جون 2020 کو گارڈن ٹاوٴن لاہور میں تمام ہوا۔

(جاری ہے)

ساہیوال میں سکونت کے دوران منیر نیازی اور مجید امجدجیسے نابغہء روزگار لوگوں کی صحبت نے شعر و ادب کے فطری ذوق کو جلا بخشی۔

بعد ازاں علم و ادب کے مرکز لاہور چلے آئے اور ریڈیو پاکستان سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔کچھ ہی عرصے میں اپنے بے مثال لب و لہجے اور منفرد تلفظ و حسن ادائیگی کی بدولت ہر جگہ جانے جانے لگے۔اسی مستحکم بنیاد کے سبب 26 نومبر 1964 کو ریڈیو پاکستان کی عمارت میں ہی پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوااور ان کے حصے میں اس کا اعلان کرنے کا منفرد اعزاز آیا۔

کالموں کا مجموعہ ”داستان“،ُُہمزاد دا دکھ“ (شاعری) کے علاوہ” اقبال شناسی“ ، اور ”فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک“ جیسی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔انہوں نے اپنے شعبے سے منسلک لوگوں کوبتایاکہ آواز کی گھن گرج اورلفظوں کے بناوٹی شعلے برسائے بغیر بھی بات دلوں میں اتاری جا سکتی ہے ،علم و ادب او سنجیدگی سے لبریز گفتگو بھی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کا باعث ہو سکتی ہے ،غیر مہذب اور اخلاقیات سے عاری حرکات کئے بغیر بھی انعامی شو کئے جا سکتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ کوئی مہمان جب آپ کے شو میں آئے تو کس طرح اسے احترام اور عزت دی جاتی ہے۔

میڈیا انڈسٹری میں طویل عرصہ گزارنے کے باوجود کسی منفی سرگرمی کا حصہ نہ بننا عجیب سا لگتا ہے، میڈیا کا مائک ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی کسی پر دشنام طرازی کے نشتر کمان سے نہ نکلنے دینا کسی حوصلہ مند شخص کا ہی کام ہو سکتا ہے،اپنے خلاف سرگرم عمل رہنے والوں پر دسترس رکھتے ہوئے بھی کسی طرح کا کیچڑ نہ اچھالنا بہت صبرکا تقاضا کرتا ہے ، زبان و بیان پر قدرت رکھتے ہوئے بھی کسی منفی پراپیگنڈہ کا حصہ نہ بننا کسی مستقل مزاج شخص کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔

موسیقی، اداکاری، قوال،کھلاڑی،فنون لطیفہ اور علم و ادب،کا شائد ہی کوئی نمائندہ شخص ہو جو ان کی میزبانی کی زد میں نہ آیا ہو۔ان کے پروگرام میں حاضر دماغی کے سوالات، ذہنی آزمائش کے سلسلے،نئے جوڑوں سے ملاقات، سنجیدہ جوڑوں سے ایک دوسرے کی مزاج شناسی کے سوالات، پاکستانیت کاپرچار ، علم و ادب کی روشنی، شعر و سخن کی خوشبو،چہروں پرمنقش ہوتے خوشیوں کے رنگ ،معاشرتی مسائل کی نشاندہی ، ان کا حل اور ہماری انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں کو غیر محسوس طریقے سے ذہنوں کی تختی پر تحریر کیا جاتا رہا۔

بزم طارق عزیز کا نام ملنے والے پروگرام کی کمپئیرنگ مرحوم دلدار بھٹی اور ان کے ساتھ کچھ اور منجھے کمپیئر کر رہے تھیجن کی پیشانی پر پسینے کے نمودار ہوتے قطرے اور بار بار بے ترتیب ہوتے جملے یہ اعلان کر رہے تھے کہ طارق عزیز صاحب کے سٹیج پر قدم جمانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔سیاسی مخالفت کی وجہ سے وہ اپنے ہفتہ وار منفرد شو کو طویل عرصے تک بلا تعطل جاری رکھنے کا ریکارڈ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل نہ کروا سکے۔

چیزوں کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھنا ان کی بہت بڑی خوبی تھی ۔45 ہزار ووٹوں کی واضح اکثریت سے لاہور کے ایک حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو اس کو اپنا کریڈٹ نہیں بلکہ پارٹی کی فتح قرار دیتے ہوئے تاریخی جملہ کہا کہ” اگرشخصی مقبولیت جیت کی بنیاد ہوتی تو میرا مخالف مجھ سے ہزار درجے زیادہ مقبول آدمی تھا“۔ان کا سیاست میں آنا کوئی پسندیدہ فیصلہ نہیں تھا جس کے اثرات نے ان کی شخصیت اور صلاحیتوں کو گہنا کے رکھ دیا تھا جو الگ سے ایک موضوع ہے ۔

پاکستان ٹیلی ویژن کا پہلا کمپیئر ہونے کا اعزاز یقینا بہت بڑا ہے لیکن میری نظر میں ان کا اصل کارنامہ تین نسلوں سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوانا ہے شائد ہی کوئی پاکستانی ایسا ہو جس نے ان کے پاکستان کہنے پر زندہ باد کا نعرہ نہ لگایا ہو۔پاکستان ٹیلی ویژن کے ادب شناس لوگوں کی ایک ٹیم کو اگر طارق عزیز صاحب کے پروگراموں کے ابتدائیے نکال کر ان کو مرحلہ وار کتابی شکل میں محفوظ کر دینے کا کام سونپ دیا جائے تو یہ بہت بڑی خدمت ہو گی جس سے تہذیب و تمدن،اخلاقیات و معاشرت اورکامیاب زندگی کے بہت سے پہلووٴں کوآنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :