حج 2020

جمعرات 30 جولائی 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

دنیا میں بسنے والے ۲ ارب مسلمانوں کا مرکز محبت، مرکز عبادت اور مرکز روحانیت گزشتہ پانچ ماہ سے بند رہا ۔جب زمین مریضوں سے بھری ہوئی تھی تو سب سے بڑے مرکز شفاء میں داخلے سے روک دیا گیا، جب لوگ روحوں کی پیاس بجھانے کے لئے جاں بلب تھے توآب زم زم کی سبیل کو تالے لگا دئیے گئے، اور جب لوگ زحمتوں میں گھرے ہوئے تھے تو رحمتوں کے دیار میں حاضری خواب کی طرح ہو گئی۔

یہ فیصلے اتنی عجلت میں کئے گئے کہ اپنے اپنے ملکوں سے احرام باندھ کر آئے ہوئے زائرین کو بھی حرم میں داخلے کی اجاز ت نہ دی گئی اور وہ کئی دن احرام باندھے حرم کی دیواروں کو دیکھ دیکھ کر اجازت نامے کی آس لگائے بیٹھے رہے اورانہیں اپنی التجاوٴں، دعاوٴں اور آرزوٴں کی گٹھڑی کے بوجھ سمیت حرم کے دروازے سے واپس لوٹا دیا گیا۔

(جاری ہے)

انہیں جانے ابکب تک اس اذیت کے ساتھ جینا ہو گا کہ ہم اللہ کے گھر کے سامنے پہنچ کر بھی اندر حاضر ہونے سے کیوں محروم رہ گئے ۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب سے پہلے ایس او پیز حرم میں داخلے کے لئے جاری ہوتے اور ترجیحی بنیادوں پراسے کھولنے کے لئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لائے جاتے۔زائرین حرمین حاضری کا ارادہ کرنے سے لے کر گھر واپس آنے تک نہ جانے کتنی قسم کے ٹیکسوں کے ہاتھوں چھلنی ہوتے ہیں اور ان میں اگر ایک کرونا ٹیسٹ بھی لازمی قرار دے دیاجاتا تو یہ عشق و محبت کے قافلے کسی نہ کسی طور رواں دواں رہتے۔

اسی دوران رمضان المبارک کی عفت مآب اور سعادت سے لبریز گھڑیاں آئیں جب خدا کی رحمتیں امڈ امڈ کر اپنے بندوں پر برستی ہیں اور دنیا کے کونے کونے سے فرزندان توحید حرم میں ان لمحوں کو گزارنے کے لئے پورا سال انتظار کرتے ہیں ، مسلمانوں کی عظمت ور فعت اور خدا کے ساتھ ان کے تعلق بندگی کے رنگ کو اجاگر کرتا ہوا یہ مہینہ جس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی، اور ایسا ہو کا عالم تھا کہ مکہ کی گلیوں میں گھومتے کتوں کی آوازیں روحوں کو چھلنی کرتی رہیں۔

مدینہ منورہ میں عید اور رمضان گزارنے کا معمول اورکائنات کے سب سے بڑے دستر خوان افطار پر بیٹھنے کا مسلسل عمل کئی لوگوں کی زندگی پر محیط تھا اور سب سے بڑھ کر عید کی نماز سرکار کی خدمت میں ادا کرنا تو ایک اتنا بڑا خواب ہے جس کی تعبیر کے آگے کائنات کی ہر نعمت ہیچ لگتی ہے۔کوئی ان کے دل سے پوچھے جو پورا سال اس عید کا حضور کے قدموں میں گزارنے کا انتظار کرتے ہیں۔

یہ مدینہ منورہ کی عید ہی ہے جہاں اپنے نبی کو عید مبارک کہنے کے بعد آنسووٴں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں۔یہ فرحت و انبساط سے چھلکتے ہوئے آنسو متاع حیات بن جاتے ہیں اور پھراسی ایک لمحے کا انتظار کرنے کے لئے پورا ایک سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اور اب حج کا وہ موقع جب لبیک اللھم لبیک کی فلک بوس صدائیں لگتی ہیں ، محمود و ایاز ایک ہی صف میں ایک ہی لباس میں ایک ہی رنگ میں نغمہ کناں ہوجاتے ہیں ۔

سعودی حکومت کا یہ فیصلہ قابل تحسین ہے کہ حج ۲۰۲۰ منسوخ نہیں کیا گیا جس پر خدا کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ لیکن پاکستان میں سعودی مفادات کیلئے کام کرنے والے علماء نے اس سارے عرصے کے دوران مجال ہے زبان کو ذرا سی جنبش دی ہو۔ریاست مدینہ کے سرکردہ ذمہ داران کی طرف سے بھی کوئی لب کشائی کرنے کی زحمت گوارانہیں کی گئی اور سب سے بڑھ کر پورے عالم اسلام کے ستاون سربراہان مملکت میں سے کسی نے بھی کوئی لائحہ ء عمل یا کوئی عملی تجاویز پیش نہیں کیں جو ایک سوالیہ نشان ہے۔

یہ کوئی بہت بڑی سائنس نہیں تھی کہ طواف اور مسجد نبوی کی حاضری کو کس طرح سے مکمل نہیں تو کسی حد تک رواں دواں رکھا جائے۔اس وقت بھی حج کو چند لوگوں تک مخصوص کر دیا گیا ہے اور مقامات حج پر کسی غیر اجازت یافتہ شخص کے داخلے پر اس قدر بھاری جرمانے اور سزائیں رکھی گئی ہیں کہ خدا کی پناہ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس بار مقامی طور پہ موجود لوگوں کی ایک نمائندہ تعداد کو آسانی سے حج کی اجازت دے کر اس کی شان و شوکت کو کسی حد تک برقرار رکھا جاتا اور دوسرے مرحلے میں تمام ممالک کے چند افراد پر مشتمل خصوصی وفود اس حج میں شریک ہوتے جس سے سب اسلامی ممالک کی نمائندگی بھی ہوجاتی اور اس عظیم عبادت کا پرشکوہ جمال بھی کسی حد تک قائم و دائم رہتا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :