یوم دفاع پاکستان اورایک ننھے سپاہی کا سیلوٹ

اتوار 6 ستمبر 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں پاک فوج کی وردی پہننے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ایک بار جب یہ سوٹ میسر آیا تو اسے پہن کر ایسا لگا جیسے میں نے ایک آہنی حصار خود پہ لپیٹ لیا ہے ،سارا دن ایک فخر اور انبساط کے ساتھ گھومتا رہا اور رات کو جب یہ وردی اتارنے کو کہا گیا تو ایسا لگا جیسے مجھ سے میرا اپنا آپ چھینا جا رہا ہے۔جانے میں کیوں ہمیشہ خود کو ایک سپاہی کی طرح محسوس کرتا تھا جب کہ مجھے اس کی ذمہ داریوں کا شعور بھی نہیں تھا۔

میرا دل چاہتا تھا کہ میں بندوق اٹھا کر اپنے وطن کی سرحدوں پر اکیلا کھڑا ہو جاوٴں اور دشمنوں کو للکاروں کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو آئے پہلے اس ننھے سپاہی کو فتح کرے اور پھر کسی اور کی طرف بڑھے اور حیرت انگیز طور پر میرے دل میں ایسا یقین راسخ تھا کہ میں اکیلا ہی دشمن کی تمام فوج کا نہ صرف مقابلہ کر سکتا ہوں بلکہ انہیں اپنی جرأت و بہادری سے پیچھے دھکیل سکتا ہوں ۔

(جاری ہے)

پھر کچھ بڑا ہوا تو سکول سے واپس آتے ہوئے اکثر پاک فوج کی گاڑیاں سامان کی ترسیل اور جوانوں کو لے کر گزرتی دکھائی دیتی تو میں سڑک کے ایک کنارے اپنابستہ رکھ کر کھڑا ہو جاتا اور ہر گزرنے والی گاڑی میں بیٹھے جوانوں کو سیلوٹ کرتا اور جب واپسی میں وہ بھی مجھے سیلوٹ کرتے تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا۔سکول سے واپس آتے ہوئے یہ روز کے معمولات کا حصہ ہوتا اور جس دن کوئی فوجی گاڑی انتظار کے باوجود نہ آتی یہ ننھا سپاہی اداس ہو جاتا کہ جیسے آج کوئی بہت ہی ضروری کام نہیں ہو سکا۔

ایک اور بات میرے حافظے میں اچھی طرح محفوظ ہے کہ ہماری ایک چھوٹی سے روزمرہ کے استعمال کی چیزوں پر مشتمل گھر سے متصل دکان ہوا کرتی تھی ۔سکول سے واپس آنے کے بعد دو گھنٹے وہاں بیٹھنا میری ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر فوج کا کیمپ لگتا تھا جہاں فوجی مشقیں ہوتی تھیں اور وہ ضرورت کا ساز وسامان لینے ہماری دوکان پہ بھی آتے تھے۔

ہمارے داداروز تازہ مٹھائی خاص مقدار میں بناتے تھے جسے یہ لوگ بہت پسند کرتے تھے۔دکان پہ اپنے بیٹھنے کے اوقات کے علاوہ بھی صرف فوجیوں کے انتظار میں بیٹھا رہتا کہ ان کو قریب سے دیکھ سکوں۔ایک بار میں اکیلا دکان پہ بیٹھا تھا کہ فوجی وردی میں ملبوس ایک جوان دکان پہ آیا اور تازہ مٹھائی طلب کی۔میں نے جلدی سے ٹرے میں رکھی ساری مٹھائی ایک لفافے میں ڈالی اور اس کے حوالے کر دی۔

اس نے کہا کہ مجھے اس قدر نہیں چاہئے تو میں نے ایک ننھا سیلوٹ اسے کیا اور کہا کہ سر یہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کیلئے ایک ننھے سپاہی کی طرف سے تحفہ ہے سب کو میری طرف سے کھلائیے۔وہ ہنس پڑا اور جیب میں ہاتھ ڈال کرپیسے نکال کر مجھے دینے لگا تو میں نے اس کا مضبوط اپنے چھوٹے چھوٹے سے ہاتھوں سے روک دیا۔نہ جانے اتنی چھوٹی عمر میں الفاظ کیسے میری زبان سے ادا ہوئے اور میں نے فوجی جوان سے کہا کہ سر تحفے کے پیسے نہیں ہوتے ۔

میں بہت دنوں سے انتظار میں تھاکہ آپ میں سے کوئی اس وقت آئے جب میں اکیلا بیٹھا ہوں تا کہ میں آپ کی خدمت کر سکوں۔اس نے بہت کہا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کون سی طاقت تھی جس نے مجھے اس فوجی جوان کو قائل کرنے پہ مائل کر لیا کہ میں نے آپ سے آج پیسے نہیں لینے۔یہ بات وہاں موجود دیگر سپاہیوں میں بھی مشہور ہو گئی اور میں بیٹھے بٹھائے ان کیلئے مرکز نگاہ بن گیا اور آتے جاتے سیلوٹ کے تبادلے کا سلسلہ خوب جمنے لگا۔

وقت گزرتا گیا اور ایف سی کالج میںNCS ٹریننگ کا اعلان ہوا ۔اس زمانے میں اس کے اگلے مرحلے میں داخلے کیلئے اس کے الگ سے نمبر ہوا کرتے تھے۔بیس لڑکوں کے ایک دستے کا معلوم نہیں صوبیدار صاحب نے کس بنیاد پر مجھے کمانڈر بنا دیا اور یوں یہ محبت مزید بڑھتی چلی گئی۔اس کورس کے اختتام پر نشانہ بازی کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا جس کیلئے آرمی کے کسی کیمپ میں لیجایا جاتا تھا۔

این سی ایس کی ٹریننگ کرنے والے200 طلباء میں جب مجھے بہترین نشانہ باز قرار دیا گیا تو شائد یہ اسی محبت کا ثمر تھا۔وقت مزید آگے بڑھا او ر قدرت نے میرے لئے کچھ اور راستے متعین کر دئیے تھے جن کی طرف خود بخود رہنمائی ہوتی چلی گئی۔مجھے دینی محاذ کا سپاہی بنا دیا گیا اور میں اس میں اب اپنی خدمات سرانجام دے رہاہوں۔ایک سپاہی کی طرح ہر وقت اس محاذ پہ کھڑ ارہتا ہوں۔

جہاں جو اچھا محسوس کرتا ہوں کر گزرتا ہوں۔میرا قلم ،میری آواز میری صلاحیتیں اب اس محاذ پہ آپ کی نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔آج کا دن ان شہداء کو خراج تحسین اور ہدیہء تبریک پیش کرنے کا دن ہے جو سرحدوں پہ جاگتے ہیں تا کہ ہم چین سے سو سکیں،یہ ان جوانوں کے جذبہء ایمانی اور حب الوطنی کو سیلوٹ کرنے کا دن ہے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے مادر وطن کو محفوظ بنایا اور ہماری زندگی میں توانائی انہی کے دم قدم سے ہے۔

سرحدوں پر کھڑے پاک فوج کے جوان گوشت پوست کے انسان ضرور ہیں لیکن یہ ایسی چٹانیں ہیں جن کو توڑا نہیں جا سکتا، یہ ایسی آہنی دیوار ہیں جس کو گرایا نہیں جا سکتا۔آج میرے سمیت پوری قوم کا سر فخر سے بلندکہ ہم اس ملک کے باشندے ہیں جس کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔جدید ٹیکنالوجی اور اسلحہ سے لیس کوئی بھی دوسری فوج ان کے جذبہء ایمان اور نعرہء تکبیر کی گونج کے آگے کھڑی نہیں ہو سکتی۔

میرے اندر موجود ننھا سپاہی بھی اب میرے ساتھ جوان ہو چکا ہے جس کی خواہش ہے کہ سرحدوں پر کھڑے جوانوں سے آگے جا کر کھڑ ا ہو جاوٴں اور ان کی حفاظت کروں جو مادر وطن کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ان کی طرف آنے والی گولیوں کو آگے بڑھ کر پہلے اپنے سینے پر اس وقت تک کھاتا چلا جاوٴں جب تک خون کا ایک بھی قطرہ اور زندگی کی ایک بھی سانس باقی ہے یہاں تک کہ دشمن تھک ہار کے واپس چلا جائے۔پاک فوج کے تمام جوانوں اور خصوصا شہداء کو اس ننھے سپاہی کامحبت،عقیدت اور جذبہء ایمانی کے ساتھ زوردارسیلوٹ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :