ایک یاد گار نعتیہ نشست اور واجد امیر

جمعرات 18 فروری 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

لاہور شہر کی ادبی مرکزیت برسوں سے قائم ہے۔یہ شہر علم و فضل، روحانیت اور ادب پروری کی تابندہ روایات کا امین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے بڑے تخلیق کاروں اور نابغہء روزگار شخصیات کا مسکن رہا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اس شہر نے بہت سے نامور لوگوں کے کام کو برکت عطا کی اور انہیں دنیا میں جانا جانے لگا تو بے جا نہ ہو گا۔بہت زیادہ دور نہ جائیں تو اسی شہر میں ایک محفل جناب احمد ندیم قاسمی کے ارد گرد جمی تھی اور کیا خوب جمی ہوئی تھی۔

ان کی ذات تشنگان ادب کیلئے میٹھے پانی کے چشمے کی طرح تھی جہاں پہ ہر آنے والا سیراب ہوتا تھا۔عہد موجود میں بھی اس وقت ادب کے بڑے ناموں کی فہرست بنا لیجئے یہ آپ کو اسی دبستان سے فیض یافتہ نظر آئیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ اب ان کے پاس نئے لوگوں کو دینے کیلئے وقت نہیں۔

(جاری ہے)

انہی کے ساتھ ساتھ ایک محفل اہل نعت کے مربی و مہربان جناب حفیظ تائب نے بھی جما رکھی تھی۔

ان کے ہاں آنے والوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے جس کی نوعیت مختلف ہوتی لیکن یہاں بھی محرومی کسے کیلئے نہیں تھی۔ہمارے موجودہ عہد میں نعت سے وابستہ شائد ہی کوئی  نعت نگار ہو جس نے ان سے اکتساب فیض نہ کیا ہو۔احمد ندیم قاسمی صاحب کے بعد یہ محفل جناب خالد احمد نے جمائی۔یہاں بھی علم و ادب کے پیاسے آتے رہے اور سیراب ہوتے رہے۔ان کے اچانک چلے جانے سے سچی بات ہے کہ دور دور تک اب ان محافل کی سرپرستی کرنے والا،اور علم کا الاؤ جلا کرنو آموز سخن وروں کا بازو پکڑتا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔

بہت عرصے کے بعد جناب واجد امیر کی دعوت پر ایک نعتیہ محفل میں شرکت کیلئے پاک ٹی ہاؤس جانا ہوا۔محفل کیا تھی رنگ و نور کی ایک کہکشاں تھی۔جناب علی اکبر عباس صاحب اس کی صدارت فرما رہے تھے اور جناب اسرار چشتی اور راقم کو بطور مہمانان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔میزبان مشاعرہ جناب واجد امیر نے اپنے کلام سے محفل کا آغاز اتنا جاندار  انداز سے کیا کہ محفل آگے بڑھتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

لیکن جوں جوں محفل آگے بڑھتی گئی اس کی اثر پذیری اور سحر انگیزی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ہر آنے والے نے مدح رسالت مآب کے ایسے ایسے رنگ بکھیرے کے محفل پرنور ہوتی چلی گئی۔یہاں نہ کوئی گروہ بندی کی گرہ لگی نظر آئی اور نہ ہی کسی پسند و ناپسند کی بو محسوس ہوئی۔ بلکہ ہر ایک نے ہر ایک کو داد دی اور جی بھر کر دی۔اس نعتیہ محفل کی سب سے اہم اور خاص بات نوجوانوں کی نئے مضامین سے معمور نعتیں تھیں۔

ایسے ایسے عمدہ اشعار ان کی طرف سے آئے کہ ایک سے بڑھ کر ایک لگا۔نو بہ نو زمینوں کی بہار،نت نئے مضامین کی خوشبو نے سارا وقت اپنے سحر میں لئے رکھا۔ان نوجوانوں کی شعری نعتیہ کاوشیں اتنی عمدہ اور تازہ کاری کے رنگ دکھا رہی تھیں کہ محترم علی اصغر عباس صاحب کو کہنا پڑا کہ آئندہ بزرگوں کو ان نوجوانوں سے پہلے پڑھایا جائے۔ایک سے ایک عمدہ شعر، ایک سے ایک اچھوتا مضمون اور ایک سے ایک دلنشیں طرز اظہارکہ بس سبحان اللہ۔

نعت کے نور سے مزین یہ محفل رات گئے تک جاری رہی۔ محفل کے اختتام پر مجھے لاہور سے باہر ایک پروگرام میں شرکت کیلئے جانا تھا جس کے سبب سب احباب سے باقاعدہ ملاقات تو نہ ہو سکی لیکن میرے دل نے ایک  بات شدت سے محسوس کی کہ اس شہر سحر انگیزکی فضا میں ادب کی محفل پھر آباد ہو رہی ہے۔اب یہ الاؤ جناب واجد امیر کے گرد اپنی لو دے رہا ہے۔نئی نسل کے بہترین نمائندہ نوجوان شعراء کے دلوں کو ان کی طرف مائل ہوتے محسوس کیا۔

مجھے امید ہے کہ انہیں اپنی اس ذمہ داری کا احساس ہو چکا ہو گا اور وہ انہیں مایوس نہیں کریں گے۔خلق خدا کے دلوں کا کسی کی طرف مائل ہو جانا خاص عنائت خداوندی سے ہی ممکن ہے۔میں نئی نسل کی ادبی ضرورتوں اور ان کے دلوں کو جناب واجد امیرکی طرف مائل ہوتا دیکھ رہا ہوں۔اللہ کرے کہ ان کے دل کے دروازے ایسے ہی وا رہیں اور محبت کا دامن یو ں ہی بچھارہے۔کیونکہ یہ شہر ایسے ہی کسی پر مہربان نہیں ہوتا اور اگرہو تو اس پہ رب سخن کے کرم کا فیصلہ ہو چکا ہوتاہے۔ڈھیروں مبارک باد جناب واجد امیر۔۔۔۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :