’’ضرب عضب“ اور ”اے وطن کے سجیلے جوانو“ دو اہم کتابیں

ہفتہ 27 فروری 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

کالم نگاری کا عمل مشاہدے سے شروع ہو کر خیالات کی مرحلہ وار تجسیم  اور پھر اس کے بعد  سپرد قرطاس کرنے  کی طرف سفر کرتا ہے ۔سب سے پہلے حالات و واقعات کو مشاہدے کی آنکھ سے دیکھ کر اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے اور جانچنے کا آغاز ہوتا ہے۔پھر اس واقعے کے اچھے اور برے پہلوؤں  کو سامنے رکھا جاتا ہے ۔ قابل حل امور و تجاویز زیر غور آتی ہیں ۔

کالم کی سپیس محدود اور خیالات کا بحر بیکراں۔ پورے کالم کو نہیں بلکہ ایک ایک جملے کو جانچنا، تولنا اور ہر ہر سطر  میں گویاسمندر کو کوزے میں بند کرنے کی مشقت ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے آج کل کالم نگاری بھی دوسری بہت سی اہم چیزوں کی طرح ایک فیشن بن کے رہ گئی ہے۔نہ عملی صحافت سے گہرا تعلق، نہ مشاہداتی باریک بینی، نہ مسائل کا ادراک، نہ بین الاقوامی صورتحال پر نظر، نہ ملکی حالات و واقعات سے مکمل آگاہی،  نہ جملے کی بناوٹ کا سلیقہ، نہ بات سے بات جوڑنے کا ہنر۔

(جاری ہے)

ہمارے اخبارات کے بیشترکالم، اس اہم صحافتی ستون کے معیار پر ہی پورا نہیں اترتے۔لیکن کالم نگاروں کی اس بھیڑ میں اب بھی انگلیوں پہ گنے جانے والے چند مستند صحافیوں کا ذکر کیا جائے تو اسد اللہ غالب اس گنتی کے ابتدائی شمار  میں آنے والااہم نام ہے۔کئی دہائیوں پر پھیلے ان کے صحافتی تجربے کی روشنی ان کے کالموں سے جھلک جھلک جاتی ہے۔صلہ وستائش اور خود نمائی سے بے نیاز ان کے کالم ہمارے صحافتی ادب کی نہ صرف زینت ہیں بلکہ آن بان ہیں۔


گزشتہ دنوں ان کی پاک فوج کی محبت اور آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے لکھے گئے کالمز پر مشتمل کتابیں ”ضرب عضب“ اور ”اے وطن کے سجیلے جوانو“ کی تقریب رونمائی میں شرکت کا موقع ملا ۔صاحب صدر نے مصنف کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ حالات کے اس نہج تک پہنچنے کے محرکات اور وجوہات کا بھی ایک نقشہ کھینچا۔انہوں نے قوم کے جذبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک جوان  لیفٹیٹنٹ کی ڈیڈ باڈی لے کر اس کے گھر پہنچا تو سوچ رہا تھا کہ ان کو کیسے حوصلہ دوں گا، لیکن جب ان کے گھر میں داخل ہوا توشہید کے اہل خانہ نے خود مجھے حوصلہ دیا اور اپنے شہید بیٹے پر فخر کا اظہار کیا۔

موجودہ آرمی چیف کے ایک بھائی 71 کے معرکے میں شہید ہو گئے تو ان کی والدہ نے اپنے دوسرے بیٹے کو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کیلئے فوج میں بھیج دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اسد اللہ غالب نے 71 کی جنگ بھی دیکھی ہے۔جس طرح فوج جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت پر معمور ہوتی ہے اسی طرح یہ ہماری نظریاتی سرحدوں کے نہ صرف محافظ بلکہ سپہ سالارہیں۔یہ کتاب بلا شبہ ایک گلدستہ ہے جس میں وطن کی محبت کے پھول اپنی دلآویز خوشبو دے رہے ہیں۔

تقریب اس حوالے سے بھی انفرادی اہمیت ہی حامل تھی کہ اس کی نظامت کے فرائض صاحب محفل یعنی اسد اللہ غالب صاحب نے خود ادا کئے جو ہر مقرر کے بعد افواج پاکستان سے اپنی گہری محبت کا ذکر بڑے خوبصورت پیرائے میں کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ کتاب کی غرض وغایت پر بھی روشنی ڈالتے رہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کتاب جو میرے افواج پاکستان کے متعلق تحریر کئے گئے کالمز پر مشتمل ہے دراصل ان شہیدوں کا کریڈٹ ہے جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ اس پاک دھرتی کیلئے پیش کیا۔

میں نے 65 کی جنگ کے شہید دیکھے تو ان کے تروتازہ اور تابندہ چہرے میری یادوں میں نقش ہو گئے۔شہیدوں کے ساتھ ساتھ ان کے ورثاء کے جذبات نے بھی میرے جذبے کو ہمیشہ مہمیز کیا۔مجھے اس بیوہ کا جملہ ابھی تک یاد ہے جس نے اپنے شہید خاوند کی لاش کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے صرف اتنا دکھا دو کہ گولی سینے پر لگی ہے یا پیٹھ پر۔جب اس نے سینہ گولیوں سے چھلنی دیکھا تو اس کی آنکھوں اور چہرے پر پھیلتی فخرکی خوشی آج بھی مجھے حیرت کی تصویر بنا دیتی ہے۔

میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر صحیح معنوں میں زندگی کا حسن دیکھنا ہو تو کسی شہید کے چہرے کو دیکھیں۔میری یہ تحریریں دراصل اپنی قوم کو ہوش مند بنانے کی بھی ایک کوشش ہے۔انہوں نے حاضرین کی تائید سے یہ بات بھی کہی کہ نیشنل سیکورٹی پلان میں عوام کو بھی نمائندگی دی جائے۔ بریگیڈیر غضنفر صاحب نے کہا کہ مصنف اپنی ان جاندار تحریروں کی بدولت صحافت کے جرنیل بن کے ابھرے ہیں اور وہ اپنے قلم کے ہتھیار کے ساتھ سیاچین اور کارگل کے مجاہدین کے شانہ بشانہ چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں۔

مصنف کے کلاس فیلو اور ممتاز کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی نے نسبتا شگفتہ گفتگو کی اور ان کے ساتھ اپنے زمانہ ء طالب علمی کی کچھ یادیں بھی تازہ کیں۔انہوں نے کہا کہ لوگ شعر چور ہوتے ہیں لیکن غالب صاحب شاعر چور نکلے کہ پورا کا پورا نام ہی اپنے نام کر لیا۔یہ تحریریں سیاہی سے نہیں بلکہ انہوں نے اپنے خون سے لکھی ہیں اور ہمیں یہ سکھایا ہے کہ قلم کو تلوار کیسے بنایا جا سکتا ہے اور دونوں سے ایک جیسا کام کیسے لیا جا سکتا ہے۔

اس کتاب میں سجے پھول خون سے پروان چڑھے ہیں۔انہوں نے کالم نگاری نہیں بلکہ سالم نگاری کی ہے۔یہ کتاب دراصل یہ پیغام دے رہی ہے کہ پاکستان ہی اسلام کا قلعہ ہے۔انہوں نے اپنے تمام ساتھیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ ممتاز کالم نگار جناب قیوم نظامی نے کہا کہ صحافی وقت کا نباض ہوتا ہے اور اسد اللہ غالب کی یہ کتابیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

انہوں نے یہ کالم نہیں لکھے بلکہ افواج پاکستان کے کردار پر روشنی ڈال کر 18 کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔وہ ہماری فوج کے ایک مضبوط اور دلیر وکیل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔انہوں نے کچھ کالمز کے اقتباس بھی پڑھ کر سنائے اور ساتھ ہی ساتھ کتاب کی طباعت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زندگی میں اتنی خوبصورت کتاب نہیں دیکھی۔معروف صحافی اور صدر اے۔

پی۔ این۔ ۔ایس    جناب مجیب الرحمان شامی نے آخر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  غالب صاحب نے شاید سوائے فوج کے باقی سب کے خلاف لکھا ہے۔یہ محض کالمز نہیں بلکہ اس قوم کا سفر نامہ ہے۔جہاں لوگ زبان کھولتے ڈرتے تھے وہاں غالب نے ببانگ دہل لکھا ہے۔ان کی رگ رگ میں اپنی فوج سے محبت کوٹ کوٹ کے بھری رہی جو عمر کے ہر حصے میں زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی گئی۔یہ کتابیں اعلان کر رہی ہیں کہ فوج کو قوم سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔یہ ایک سچے پاکستانی ہیں اور انہوں نے اپنے قلم کا حق ادا کیا ہے۔تقریب میں صحافت سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات کے ساتھ ساتھ حاضرین کی کثیر تعداد نے شرکت کی جو مصنف کی اس کاوش پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے دکھائی دیئے۔  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :