پردے پر وزیر اعظم کا بیان اور لبرلز کا واویلا

جمعرات 1 جولائی 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

وزیر اعظم پاکستان کے ایک امریکی ٹی وی کو دیئے گئے خواتین کے لباس کے حوالے سے   بیان پر اتنا شور مغربی میڈیا میں نہیں اٹھا  جتنا ماتم یہاں برپا ہے۔نام نہاد لبرلز مافیا کی تو جیسے باقاعدہ دم پر پیر آ گیا ہو اور ان کی طرف سے دانشوری کے ایسے ایسے  مظاہرے  سامنے آ رہے ہیں کہ ان کی  فہم و بصیرت  پر پہلے سے زیادہ سوال اٹھنے لگے ہیں ۔

وزیر اعظم پاکستان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ معاشرے میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیچھے دراصل عورتوں کی لباس کے حوالے سے برتی جانے والی بے احتیاطی کا بھی عمل دخل ہے۔وزیر اعظم کاکہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ مغرب سے بالکل مختلف قسم کا معاشرہ ہے ۔یہاں ڈانس کلب اور جنسی آزادی کا ماحول عام نہیں اور جب اخلاق باختہ نیم عریاں لباس پہنے جائیں گے تو سامنے مرد کوئی روبوٹ تو نہیں کہ ان پر اس کے اثرات نہ ہوں۔

(جاری ہے)

وزیر اعظم نے   کم لباسی کو جنسی ہیجان خیزی کی بہت ساری وجوہات میں سے  ایک وجہ قرار دیا جسے  شعوری طور پر کسی بھی طور جھٹلایا نہیں جا سکتا۔فیشن اور جدت کےنام پر کیسی کیسی بے لباسی ہمارے معاشرے کا حصہ بنا دی گئی ہے، ہمارا میڈیا کس قسم کے لباس اور  موضوعات کو پروموٹ کر تے ہوئے کیسی کیسی بے ہودگی کو عام  کر رہا ہے جو سب مل کر ایسی بے راہ روی کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں ۔

لباس جسم ڈھاپنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ دکھانے کے لئے۔ یہ مرد و عورت کی زیب و زینت کے لئے ہوتا ہے نہ کہ اس کے جسمانی خدو خال کی نمائش کے لئے، لیکن  ایک عرصے سے یہاں کم لباسی اور عریانیت کو جدت اور فیشن کے نام پر گھسایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں یہ لوگ اب  اتنے خود سر ہو گئے ہیں کہ سربراہ مملکت کو بھی اس عریانیت پر بات کرنے  سے روکنے پر تلے ہیں۔

اس  بیان کے جواب میں ایک نجی ٹی وی چینل  کے میزبان نے پورا گھنٹہ زور لگایا اور اپنے پروگرام میں کچھ امریکی اور افریقی این جی اوز کی ریپ کیسز کے حوالےسے کی جانے والی تحقیقات کی روشنی میں اس کی کچھ اور وجوہات بیان کیں  اوروزیر اعظم کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کو کہا۔ان کا کہنا تھا کہ مرد کے اندر  عورت پر حاکمیت کا جو بھوت سوار ہے وہ  دراصل اسے ریپ پر اکساتا ہے اور گفتگو کے دوران بہت سے ایسے زہر ناک جملے بھی کہے  جن میں سے سب سے ہلکا جملہ یہ تھا کہ مرد کو تو اپنی بیوی پر بھی اس کی مرضی کے خلاف  چھونے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور یہی بین الاقوامی ایجنڈے کا وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر عورت مارچ کی دیواریں ہر سال کھڑی کی جاتی ہیں۔

  گویا اس اینکرکو  نظر کی عینک سمیت ان این جی اوز کی تحقیقات اتنی معتبر اور حتمی  دکھائی دے رہی ہیں کہ ہمیں اپنی تمام تر روایات ، تعلیمات، کلچر اور تہذیب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس تحقیق کی روشنی میں ہی اپنا موقف اور نظریہ قائم کرنا چاہئے۔ ایک اور معروف اینکر اور کالم نگار جو پروگرام سے پہلے درود پاک پڑھے جانے کو اپنے کریڈٹ  کے طور پر ذکر کرتے ہیں ان کی بھی غیر منطقی دلائل اور بے سرو پا باتیں حیران کن تھیں۔

انہوں نے پھبتی کسی کہ  اس پردہ داری کا آغاز پارلیمنٹ کی خواتین سے کیا جائے جس میں شیریں مزاری کا خاص طور پر ذکر کیااور دلائل ایسے مضحکہ خیز تھے کہ ان کے موٹیویشنل لیکچرز کو قیمت دے کر سننے والوں پر ترس آ رہاہے ۔ ایک اور دانشور نے اپنی ذہانت اور علم کا کمال مظاہرہ کرتے ہوئے کسی امریکی ماڈل خاتون کی نیم برہنہ تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اسے تو ان  مختصر ترین کپڑوں کے باوجود  کسی نے ریپ نہیں  کیا ۔

ایک معروف خاتوں اینکر بھی اسی بات پر ماتم کناں تھیں کہ آخر ہمارے لباس کو نشانہ کیوں بنایا گیا ہے ہم اس پر سراپا احتجاج ہیں۔خیرمنہ تو اتنے برے نہیں   جتنی بری باتیں منہ سے نکل رہی ہیں ۔ان کا زور آ جا کے اس بات پر ٹوٹ رہا تھا کہ مدارس میں بچوں کے ساتھ ہونے والی غیر اخلاقی حرکات آخر کون سی کم لباسی کی بنا پر ہوتی ہیں جو کیسی جاہلانہ دلیل ہے ۔

دراصل جنسی ہیجان اور حیوانیت کوئی جز وقتی معاملہ نہیں بلکہ یہ لاوے کی طرح اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے۔ کم لباسی اور نمائش جسم کی  بپھری ہوئی موجیں بازاروں ، شاپنگ مالز، میڈیا کے ڈراموں،  فلموں کے مناظر،موبائل فونز پر اخلاق باختہ کلپس میں اچھل اچھل کر  بے راہ روی کی دلدل میں گھسیٹ رہی ہوتی ہیں اور پھر مناسب وقت ملنے پر یہ ذہنی دباؤ اور پسماندگی انہیں کہیں بھی لے جاتی ہے ۔

بعض اوقات   معاشرتی حیثیت ،پیسے کی کمی اور  وسائل کی عدم دستیابی پر  یہ تان کسی آسان ہدف  پر ٹوٹتی ہے جس کا شکار زیادہ تر بچے  ہوتے ہیں۔ایسی مجرمانہ ذہنیت  ایک نفسیاتی رویہ ہے  جس کے پنپنے کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں  جن کو جانے بغیر کسی بھی قسم کی  رائے قائم کرنا کوئی دانشمندی نہیں ۔اسی بنا پر اس کا تعلق کسی خاص شعبے سے  بھی نہیں جوڑا جا سکتا۔

لیکن ایسے لوگ جس بھی شعبے میں ہوں  انہیں اس کا انفرادی طور پر ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہئے نہ کہ ان کی وجہ سے اس پورے شعبے کو مورد الزام سمجھا جائے۔یہ امر افسوسناک ہے  کہ  جس زور سے لبرلز نے پردے  اور لباس پر واویلا مچایا دوسری طرف مذہبی حلقوں کی طرف سے اس کے حق میں کوئی موثر اور توانا آواز نہیں اٹھائی  گئی جو  ہر گز نیک شگون نہیں ۔

کوئی موہوم  سی صدا بلند ہوئی بھی تو ساتھ  یوٹرن نہ لے لیا جائے کے طنز اور نشتر  بھی برسائے گئے ۔ حیرت ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے پردے کے حوالے سے  اسلامی تعلیمات کا نہیں بلکہ  محض کم لباسی سے پیدا ہونے والی خرافات اور بے راہ روی کا ذکر کیا اوراگر وہ ریاست مدینہ میں پردہ اور حیا کی اہمیت پر دینی نقطہء نظر سے  بات کرتےتو نہ جانے کیا طوفان آ جاتا۔

اسلام کا اصول اور نظریہ بہت سیدھا اور سادہ ہے جس کے مطابق خواتین کو پردہ داری اور مردوں کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اگر محض یہ دو اصول  دونوں طرف ہی اپنا لئے جائیں تو عریانیت اور کم لباسی  اور نمائش کی کہیں جگہ ہی نہیں بنتی۔ ہمارے لئے حجت اور دلیل صرف اور صرف کتا ب زندہ اور سیرت رحمت عالمؐ ہے ۔آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ" حیا سے ہمیشہ بھلائی پیدا ہوتی ہے، حیا ء سے وقار حاصل ہوتا ہے، حیا ء سے سکینت حاصل ہوتی ہے"۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ" ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے"۔ایک اور حدیث بہت قابل فہم ہے "کہ جب تجھ میں حیاء نہ ہو تو پھر جو جی چاہے کر"۔جب اس حقیقت سے پردہ اٹھ جائے کہ یہ جسم ہمارا نہیں بلکہ ہمارے پیدا کرنے والے کی امانت ہے جسے ہر صورت اسے لوٹاناہے تو پھر اس پر اپنی مرضی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہ کالم لکھتے ہوئے  مجھے اچانک خیال آیا کہ حضرت انسان کو حکم خدا  سے  روگردانی پر ملنےوالی پہلی سزا بے لباسی تھی جس کے سبب جنت سے زمین پر اتار دیا گیا ۔اور اب ہم نمائش  جسم کرنے والے  نیم عریاں لباس کو اپنا حق قرار دے کر اسے اختیار کرنے پر بضد ہیں ۔جنت سے زمین تک تو آ گئے اب نہ جانے کہاں جانا چاہتے ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :