ڈاکٹر حسین محی الدین سے ایک علمی و فکری نشست

پیر 19 جولائی 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

اس حقیقت سے انکار کسی طور ممکن نہیں کہ موجودہ دور بھی ہر زمانے کی طرح صاحبان علم کا زمانہ ہے۔ہر دور میں وہی لوگ باوقار  اور زمانے میں صاحب مقام رہے جنہوں نے  علم  کاراستہ اختیار کیا ۔آج بھی وہی قومیں ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہی ہیں جو جدید علوم میں کمال رکھتی ہیں۔ہمارے ہاں کا تعلیمی نظام دو طرح کی انتہاؤں سے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک طرف تو وہ تعلیمی ادارے جو جدید تعلیم کے نام پر نوجوان نسل کو دین سے دوری کی طرف لے جا رہے ہیں اور دوسری طرف وہ دینی ادارے ہیں جو روایتی  علوم سے آگے بڑھ کر عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو پارہے۔جدید علوم سے آگاہی اور ان میں کمال حاصل کرنا اس عہد کا تقاضا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے دینی شعور کو بلند رکھنا اوراس حوالے سے اپنی  ذمہ داری کا ادراک ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

عصری علوم اور دینی شعور یکجا ہونگے تو ایک صحت مند اور باوقار معاشرہ وجو دمیں آئے گا جس سے انسانیت آسودہ ہو سکے گی۔ موجودہ دور میں ایسے سکالرز کی اشد  ضرورت ہے جو دین کی اہمیت اور عصری علوم کی ضرورت سے آگاہوں۔ان کی اپنے شعبے میں  علمی استطاعت بھی اپنے کمال پر ہو اور وہ  دینی نکتہ نظر سے جدید علوم کی افادیت کو بیان کرنے کا ملکہ رکھتے ہوں ۔

دین دنیا کے امتزاج کی حامل شخصیات کے قحط الرجال میں ڈاکٹر حسین محی الدین کاوجود بلا شبہ  ایک غنیمت ہے ۔ جدید علوم کے میدان میں اترنے سے پہلے انہوں نے خود کو  دینی، اخلاقی روحانی اور علمی فیضان سے  سیراب  کیا اور پھر  بین الاقوامی یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کیا۔ اس لئے ان کی گفتگو سے نہ تو محض درس و تدریس کا تاثر ابھرتا ہے اور نہ ہی محض کسی ماہر معاشیات کی طرح  جمع تفریق کا گورکھ دھندہ محسوس ہوتی ہے۔

دراصل دین کا علم  عصری علوم کے جسم  سے مادیت پرستی کے فاسد مادوں کو زائل کر کے انسانی  بھلائی اور خیر کی طرف مائل کرتا ہے۔ ان سے بات چیت کے دوران تصوف، شاعری، حالات حاضرہ،بین الاقوامی امور، فلسفہ اور موجودہ خانقاہی  نظام سمیت دیگر امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور حیرت انگیز طور پر ان ساری جہتوں میں ان کی بالغ نظری اور فکری وسعت کا اندازہ ہوا۔

جو بھی موضوع زیر بحث آیا اس پر ان کی کتاب موجود تھی ۔منہاج یونیورسٹی نے بہت کم وقت میں ان کی قیادت کے زیر اثر بے مثال کامیابیاں حاصل  کی ہیں ۔ اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کا چناؤ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نعت فورم کے تحت ہونے والی پہلی قومی ادبی نعت کانفرنس کا خصوصی شمارہ دیکھ کر انہوں نے بہت طمانیت کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں بہت بڑی خوشخبری سنائی  کے اسی جامعہ کے تحت حضرت حسان ؓ بن ثابت نعت ریسر چ سینٹر کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے جس کے افتتاح کا  باقاعدہ اعلان بہت جلد کیا جائے گا۔

نعت کے حوالے سے ایسے مرکز کی ضرورت بہت مدت سے محسوس کی جارہی تھی جہاں اس فن سے منسلک تاریخی شخصیات کے کام  کو محفوظ بنانے، مختلف زبانوں میں نعت پر ہونے والے کام کو یکجا کرنے جیسے بہت سے اہم کام کئے جائیں گے۔نعت کے حوالے سے ایک ایسی لائبریری قائم کی جائے گی جہاں اس فن کے محققین کو مطلوبہ مواد سہولت کے ساتھ ایک ہی جگہ  دستیاب ہو گا۔

نعت کی علمی و تحقیقی خدمات کے ساتھ ساتھ نعت خوانی کے حوالے سے مختصرتربیتی  کورسز بھی کروائے جائیں گے جس سے نعت پڑھنے والوں کو تربیت کے عمل سے گزرنے کا موقع میسر آئے گا ۔بلا شبہ یہ سینٹر نعت کی تحقیق اور اس فن کی تربیت و ترویج کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔  اس کے علاوہ شیخ الاسلام تصوف سینٹر کا قیام  پر بھی بات ہوئی جو بلاشبہ اس جامعہ کا  ایک اور بے مثال کارنامہ ہے جس میں تصوف کے  بڑے سلاسل کی تعلیمات اور ان کے تربیتی  نظام کوکورسز اور تعلیمی انداز میں سکھانے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

خانقاہی نظام میں پیدا ہونے والی خرافات نے  موجودہ دور میں تصوف  و روحانیت کے منکرین کو اس کے خلاف بات کرنے کا جواز فراہم کر دیا ہے جس نے نوجوان نسل کے ذہنوں   میں دین کی اس اہم شاخ کے حوالے سے بہت ابہام پید اکر دئیے ہیں۔یہ سینٹر ان اشکالات کو دور کرنے اور تصوف کی حقیقی روح  کو اجاگر کرنے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرے گا۔عموما دینی شخصیات جب تعلیمی ادارے بناتی ہیں تو کوشش کے باوجود بھی وہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے ۔

منہاج القرآن جیسی خالصتاً دینی اور علمی تحریک نے جب تعلیمی میدان میں قدم رکھا تو ابتدا میں اس کے حوالے سے بھی زیادہ تر یہی دیکھا اور سوچا جا رہا تھا لیکن جب ادارے کے سربراہ ایک مکمل ویژن کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جرات رکھتے ہوں تو ادارے ایسے ہی ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔آج منہاج یونیورسٹی اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں دیگربڑے  پرائیویٹ ادارے  موجود ہیں اور وہ تعلیمی ویژن  میں کسی بھی طرح ان سے پیچھے نہیں ہے۔

محترم ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی علمی وجاہت، بے مثال خطابت، لازوال انتظامی صلاحیت اور اپنی شخصیت کی مقناطیسیت میں دین و دنیا کا حسین امتزاج رکھتے ہیں۔دو نسلوں کی علمی اور فکری تربیت اور اصلاح عقائد  ان کا فقید المثال کارنامہ ہے۔اس خالصتا دینی و علمی تحریک کا دائرہ دنیا بھر میں پھیلا دینا ان کے عزم اور استقامت کی دلیل ہے۔لیکن ان کی اس سے بھی بڑی کامیابی  یہ ہے کہ انہوں نے اپنی فکری اور علمی وراثت کو بڑی کامیابی سے اگلی نسل  تک منتقل کر دیا ہے۔

نگاہوں کو خیرہ کر دینے والے جلوۂ دانش فرنگ  تک لے جانے سے پہلے انہوں نےان کی آنکھوں میں خاک مدینہ و نجف کا سرمہ بہت اہتمام سے لگایا ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین سے ہونےوالی ملاقات میں یہ بات واضح طور سامنے آ ئی کہ ایک توانا پیڑ کے سائے میں پروان چڑھنے والا پودا بھی اب اپنی جڑیں زمین میں  مضبوطی سے پکڑ نے کے بعد  اندر ہی  اندر اسی توانا درخت سے پیوست ہو کر اب اپنے قدم جما چکا ہے اور دوسری طرف  زمین سے باہر اس کی اپنی سر سبز و شاداب خوش رنگ شاخیں بھی پھوٹنا شروع ہو گئی ہیں جس کے رنگ اور خوشبو اس نخل سایہ دار کے پہلو بہ پہلو نمایاں ہو رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :