
آزادی صحافت اور "فیک نیوز کی وباء"
اتوار 3 مئی 2020

شاہد افراز خان
دوسری جانب یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ نوول کورونا وائرس سے متعلق دنیا کو فیک نیوز کا چیلنج بھی درپیش ہے۔سماجی میڈیا پر تواتر سے غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں ،علاج معالجے کے غیر موئثر اور صحت کے لیے تباہ کن ٹوٹکے بتائے جا رہے ہیں اور فیک نیوز کا بھی ایک بازار گرم ہے جس سے عوام میں بے چینی اور خوف و ہراس جنم لے رہا ہے۔
(جاری ہے)
اگرچہ فیک نیوز کوئی نئی بات نہیں ہے ماضی میں بھی ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں لیکن عالمگیریت کے دور میں درپیش کووڈ۔
19 کی کٹھن آزمائش میں جعلی معلومات کی حوصلہ شکنی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔عالمی سطح پر ایک جانب جہاں مہلک نوول کورونا وائرس کی سنگینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو دوسری جانب اس سے جڑے مفروضے ،فیک نیوز اور افواہوں میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے ۔ ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں عوام الناس کو خبردار کیا ہے کہ عالمگیر وبا سے خود کو بچاتے ہوئے "معلومات کے وبائی امراض" سے بھی بچنے کی کوشش کی جائے ۔ اس انتباہ کا مقصد وسیع پیمانے پر غیر مصدقہ معلومات کا سامنے آنا ہے جوانسداد وبا کی کوششوں میں مزید مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی نے رواں برس جنوری سے مارچ تک کووڈ-19 سے متعلق دو سو پچیس معلومات کا تجزیہ کیا جنہیں"فیک" یا "گمراہ کن" قرار دیا گیا ہے ۔ان میں سےاٹھاسی فیصدمعلومات سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی ہیں ۔مثلاً چند حلقوں کے دعوے سامنے آئے کہ دھوپ میں زیادہ دیر بیٹھنے ،پانی کا زیادہ استعمال، گرم پانی سے نہانےیا پھر لہسن پیاز وغیرہ کھانے سے وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ افواہ سازی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور اب "ٹیکنالوجی" بھی اسی فہرست میں شامل ہو چکی ہے ۔ چند حلقوں کی جانب سے کہا گیا کہ 5G موبائل نیٹ ورک بھی وائرس کے پھیلاو کا سبب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان سمیت دیگر دنیا میں بھی اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اظہار خیال کیا گیا بلکہ تحفظات اور تشویش ظاہر کی گئی کہ شائد 5G ٹیکنالوجی کے باعث بھی وائرس کی منتقلی ممکن ہے۔عالمی ادارہ صحت اور ماہرین کو یہ کہنا پڑا کہ وائرس کسی بھی موبائل نیٹ ورک کے ذریعے سفر نہیں کر سکتا ہے۔اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک ایسے بھی ہیں جہاں فی الحال 5G ٹیکنالوجی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں مگر اس کے باوجود وہاں وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ لہذا ایسے مفروضے کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ اسے ٹیکنالوجی کی حوصلہ شکنی قرار دیا جا سکتا ہے۔
کچھ حلقوں میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ نوول کورونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے جسے کسی تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا ہے لیکن اس وقت ڈبلیو ایچ او سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں تحقیقی کاوشیں سامنے آ چکی ہیں جن میں واضح کیا گیا ہے کہ نوول کورونا وائرس کسی لیبارٹری کی پیداوار نہیں بلکہ قدرتی ہے۔
رواں برس یونیسکو کی جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کووڈ۔19 کے باعث صحافت کے شعبے کو بھی اضافی چیلنجز درپیش ہیں کیونکہ صحت عامہ سے متعلق ایک عالمی بحران میں مصدقہ اور درست معلومات کی فراہمی کئی قیمتی جانیں بچا سکتی ہے۔ غلط معلومات کا تواتر سے سامنے آنا عالمگیر وبا کو مزید ہوا دے سکتا ہے جو وائرس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہے۔حالیہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے انسانی جسم سے وائرس کے خاتمے کے لیے جراثیم کش مائعات اور الٹرا وائلٹ لائٹ کے استعمال کی بات کی۔اُن کا یہ بیان دیکھتے ہی دیکھتے سماجی میڈیا پر ایک مقبول موضوع بن گیا ، دنیا بھر میں صحت عامہ کے ماہرین شدید تشویش میں مبتلا ہو گئے اور جراثیم کش مواد تیار کرنے والی کمپنیوں کو بھی سامنے آ کر وضاحت کرنا پڑ گئی کہ صدر ٹرمپ کے بیان میں کوئی صداقت نہیں ہے اور ایسا کرنے سے انسانی جان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح مارچ میں فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ نے بھی لوگوں کو خبردار کیا کہ وائرس کے خاتمے کے لیے بلیچ کے استعمال کی ترغیب حماقت ہے اور ایسا کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔انہوں نے سماجی میڈیا بالخصوص فیس بک سے ایسے تمام مواد کو ہٹانے کا بھی وعدہ کیا لیکن بدقسمتی سے فیک نیوز کا کھیل اب بھی جاری ہے۔
یہاں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ روایتی میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا تک عوام کی رسائی انتہائی آسان ہو چکی ہے اور ہرقسم کی بریکنگ نیوز بھی آپ کو سوشل میڈیا سائٹس ہی فراہم کر رہی ہوتی ہیں ، قطع نظر کے ان خبروں میں کتنی صداقت ہے ۔ عالمی سطح پر مختلف ممالک کے لیے سوشل میڈیا ضوابط کی ترتیب اور نفاز یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔میڈیا اداروں کو بھی اس ضمن میں آگے آنا چاہیے اور عوام میں فیک نیوز سے متعلق آگاہی کا فروغ لازم ہے بالخصوص ایسی صورتحال میں جب انسانیت کو سنگین عالمگیر وبا کا سامنا ہے۔
عالمی وبائی صورتحال کے پیش نظر روایتی و سوشل میڈیا دونوں کے مثبت اور تعمیری کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن اس کٹھن صورتحال میں درست اور شفاف معلومات کی فراہمی انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے لازم ہے۔ اگر غیر مصدقہ معلومات کا پھیلاو جاری رہا تواس سے ایک جانب معاشرے میں خوف وہراس جنم لے گا تو دوسری جانب انسداد وبا کے لیے جاری کوششوں کو بھی سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شاہد افراز خان کے کالمز
-
چین کا معاشی آوٹ لُک 2022
پیر 10 جنوری 2022
-
افغانستان میں چین کے انسان دوست اقدامات
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
چین کا عوامی حاکمیت کا تصور
منگل 7 دسمبر 2021
-
اقتصادی تعاون کا نیا ماڈل
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
جدوجہد سے عبارت 100 سال
جمعہ 19 نومبر 2021
-
حقیقی وژنری قیادت
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
عالمی سطح پر"میڈ اِن چائنا" کی اہمیت
ہفتہ 6 نومبر 2021
-
علاقائی انضمام سے مشترکہ ترقی کا خواب
جمعہ 29 اکتوبر 2021
شاہد افراز خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.