پاکستانیوں کا چینی رضاکار دوست

پیر 4 مئی 2020

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

حالیہ عرصے میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں قیام کے دوران کئی زاتی مشاہدات اور تجربات کا سامنا رہا جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔جنوری کے اواخر سے  کووڈ۔19  کے باعث خود کو صرف اپنے گھروں  تک محدود کر لینا ، دفتر کے لیے  گھر سے باہر نکلتے وقت ہمیشہ ماسک کا استعمال اور دفتر کے اندر بھی ماسک نہ اتارنا ، ایک ہی بلڈنگ میں رہنے کے باوجود اپنے دیگر پاکستانی دوستوں سے ملاقات کانہ ہونا ، دفتر ، نزدیکی مارکیٹ اور رہائشی عمارت میں داخلے کے وقت  بار بار ٹمپریچر  کی پیمائش ، ہلکی سی کھانسی یا چھینک سے بھی انجانے خوف میں مبتلا ہو جانا ، پبلک ٹرانسپورٹ کا عدم استعمال اور کسی بھی پارک یا تفریحی مقام کا رخ نہ کرنے سمیت سخت ترین سماجی فاصلے کے اصول پر عمل پیرا رہنا  ، یہ وہ ضوابط تھے جن کا مقصد اپنا اور اپنے قریبی دوستوں کا تحفظ تھا۔

(جاری ہے)


یہی وجہ ہے کہ اسی نظم و ضبط اور منظم طرز عمل کی بدولت چین نے ایک قلیل مدت میں عالمگیر وبا کو شکست دی اور اس وقت ملک بھر میں معمولات زندگی تیزی سے بحال ہو رہے ہیں۔ اردو سروس میں کام کرنے والے ہم چار پاکستانیوں  کی بیجنگ میں رہائش گاہ  سے چند قدم دور ہی ایک رہائشی کمیونٹی ہے جہاں کی مارکیٹ سے  روٹی ،فروٹ سبزی اور پینے کا پانی روزانہ لانا ایک معمول ہے۔

اس مارکیٹ کی وجہ انتخاب بھی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اکلوتے روٹی والے کو سمجھانے میں ڈیڑھ سے دو ماہ لگے کہ پاکستانی روٹی سے ملتی جلتی روٹی کیسے بنانی ہے۔چین میں رہنے والے پاکستانی شہریوں کی اکثریت پاکستانی روٹی کی قدر  سےبخوبی آگاہ ہے  ، سبزی والے سے اپنا یارانہ ہے کیونکہ وہ  چین۔پاک دوستی  کا شیدائی ہے اور اسی بناء پر فروٹ سبزی خریدتے وقت دھنیا ،سبز مرچ ،پالک وغیرہ مفت میں  دے دیتا ہے اور  دیگر گاہکوں کی نسبت  ہمارے لیے نرخ بھی کم ہی ہوتے ہیں۔

تیسری اہم وجہ مارکیٹ میں ہمارا ایک دوست حجام بھی ہے جسے بڑی مشکل سے تصاویر دکھا دکھا کر  پاکستانی اسٹائل کے بال تراشنے سے متعلق قائل کیا  ۔زندگی سکون سے گزر رہی تھی کہ اچانک کورونا وائرس نمودار ہوا اور  پھر  سب کچھ بدل گیا۔ فروری کے آغاز میں چینی حکومت کی جانب سے انسداد وبا اور شہریوں کے تحفظ کے لیے جامع اور سخت گیر اقدامات کا آغاز کیا گیا تو  اس میں ایک نکتہ یہ بھی شامل تھا کہ  رہائشی کمیو نٹیز میں کسی بھی اجنبی شخص کے داخلے کو روکا جائے۔


ان احکامات کی روشنی میں  اس نزدیکی کمیونٹی میں ہمارا داخلہ بند ہو گیا ۔کمیونٹی کے داخلی دروازے پر ہمیشہ چار سے پانچ افراد موجود رہتے ہیں جن کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ شائد حکومتی اہلکار ،سیکیورٹی گارڈ یا پھر پولیس اہلکار ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب رضاکار ہیں جو چوبیس گھنٹے وبا کی روک تھام و کنٹرول اور شہریوں کے جانی تحفظ کے لیے مصروف عمل ہیں۔

ان رضا کاروں کے بنیادی فرائض میں رہائشی علاقے میں داخل ہونے والے ہر شخص سے متعلق معلومات کا اندراج ، ہر فرد کے جسمانی درجہ حرارت کی پیمائش اور کسی بھی اجنبی شخص کے داخلے کو روکنا تھا۔یہاں رضا کاروں کی خدمات سے وسیع  پیمانے پر استفادے کا بہترین ماڈل ہمیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔
ان رضاکاروں میں  ایک نوجوان ایسا بھی تھا  جو  انگریزی میں بات چیت کر لیتا تھا۔

اس سے  دوستی کا سفر شروع ہوا جو آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔اس نوجوان نے اپنی ہمدردی اور انسان دوست جذبے سے  ہم پاکستانیوں سمیت ہر شخص کا دل جیتا ہے۔ اب چونکہ کمیونٹی میں تو  ہم داخل نہیں ہو سکتے تھے  کیونکہ ہمارے  پاس رہائشی انٹری کارڈ نہیں تھا لیکن بنیادی ضروریات مثلاً پانی وغیرہ تو  یومیہ بنیادوں پر چاہیے تھا لہذا پہلے ہم نے اس نوجوان سے درخواست کی کہ  پانی کی مشین یا مارکیٹ تک جانے کی اجازت دی جائے۔

اس نوجوان نے انتہائی شائستگی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بے شک آپ میرے دوست ہیں لیکن نظم و ضبط کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کمیونٹی میں داخل نہ ہوں لیکن میں آپ کی مدد کروں گا۔
ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ یہ نوجوان کیسے ہماری مدد کرے گا لیکن پھر اس نوجوان کے عمل نے ہمیں انتہائی حیرت میں مبتلا کر دیا۔اس نوجوان رضا کار نے ہم سے  روزانہ پانی کی بوتل اور کارڈ لے لینا اور خود مشین سے پانی بھر کر  لا کر دے دینا۔

پانی کی مشین اور داخلی گیٹ تک کافی فاصلہ ہے اور تین سے پانچ منٹس لگ جاتے ہیں، پھر بیس لیٹر وزنی بوتل اٹھانا بھی آسان نہیں مگر میرے پاس الفاظ نہیں کہ کیسے اس نوجوان رضاکار  کا شکریہ ادا کیا جائے جس نےروزانہ یہی مشق اپنائی۔
 فروری میں شدید سرد موسم اور برفباری میں بھی ہمارا یہ چینی دوست کبھی اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوا اور ہر وقت مستعد ،چاق و  چوبند اور بلند حوصلےکے ساتھ  آنے والوں کا استقبال کرتا اور خوش اخلاقی سے سوالات کے جوابات دیتا۔

ایک مرتبہ گھر سے نزدیکی مارکیٹ کے لیے نکلا تو ماسک ٹھیک کرتے وقت اچانک نیچے سٹرک پر گر گیا۔ کمیونٹی کے دروازے پر یہی چینی دوست دوڑتا ہوا آیا اور پہلا سوال یہی پوچھا کہ "دوست ماسک کدھر ہے" ، جب بتایا کہ ماسک تو مٹی سے آلودہ ہو چکا ہے تو ہمارے اس چینی دوست نے کچھ سیکنڈز انتظار کے لیے کہا ،دوڑتا ہوا گیا اور  دو ماسک دیتے ہوئے کہا کہ ماسک کی پابندی لازم ہے اور کسی بھی عوامی مقام پر بناء ماسک کے جانا غیر مناسب ہے۔

مجھے واقعی اپنے چینی رضاکار دوست کی ہمدردی نے بے حد متاثر کیا اور اسی باعث ہماری دوستی بھی مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
چین بھر میں ایسے نوجوان رضا کار انسداد وبا کے خلاف ایک ڈھال ہیں جو دن رات موسم کی شدت کی پرواہ کیے بغیر ہمارے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ان رضاکاروں نے شہریوں کو  کھانے پینے کی اشیاء  اور ادویات کی فراہمی سمیت انھیں وبا سے بچاو کے لیے لازمی آگاہی بھی فراہم کی ہے۔

چین بھر میں لاکھوں ایسے رضا کاروں نے عوام کی بہتر صحت اور وبا سے بچاو کے لیے اپنے وقت اور  آرام کی قربانی دی ہے ۔ان لوگوں نے ایک منٹ کے لیے بھی اپنے فرض سے غفلت نہیں برتی ہے اور چین کو وبا کے خلاف جنگ میں فتح کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ایسے تمام رضاکاروں کو ڈھیروں سلام اور خراج تحسین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :