چین عالمی اشتراکی ترقی کا قائد

منگل 5 اکتوبر 2021

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

چین کے حوالے سے یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس نے  نہ صرف اپنی زبردست اور تیز رفتار ترقی کا باب رقم کیا ہے بلکہ عالمی ترقی میں بھی سب سے بڑا شراکت دار  بن چکا ہے۔ حالیہ برسوں میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے چین کے نقطہ نظر پر نگاہ دوڑائیں تو  "ترقی" ہمیشہ کلیدی لفظ رہا ہے۔گزشتہ  چند دہائیوں میں چین نے نسبتاً  ایک پسماندہ پیداواری صلاحیت سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت تک ایک تاریخی پیش رفت حاصل کی ہے ، جبکہ چین مسلسل 15 سالوں سے عالمی معاشی نمو میں شراکت کے اعتبار سے دنیا میں سرفہرست ہے۔


ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی عام بحث سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ نے پہلی مرتبہ دنیا کے سامنے "گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو" پیش کیا  ،مستحکم ترقی کو ترجیح دینے پر زور دیا ، عوام کی مرکزی اہمیت اجاگر کی،اشتراکی تصور اپنانے پر زور دیا ، اور جدت پسندی کی حمایت کی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ انسانیت اور فطرت کے مابین ہم آہنگی سے سبز اور پائیدار عالمی ترقی کو فروغ دیا جائے جبکہ وبا سے متاثرہ معیشت کی بحالی کے لیے اشتراکی ترقی پر توجہ مرکوز کی جائے۔


چین ہمیشہ مشترکہ ترقی کو فروغ دینے اور اپنی ترقی کو دنیا کی ترقی کے ساتھ فعال طور پر جوڑنے کے لیے پرعزم رہا ہے۔ چین کی جانب سے پیش کردہ  "بیلٹ اینڈ روڈ"   انیشیٹو جسے مختصراً بی آر آئی بھی کہا جاتا ہے ، کو رواں برس  8 سال مکمل ہوچکے ہیں۔سن دو ہزار تیرہ میں چینی صدر شی جن پھنگ نے عالمی سطح پر رابطہ سازی کے فروغ کے لیے یہ تصور پیش کیا تھا جسے آج بین الاقوامی حلقوں میں اشتراکی ترقی کا عمدہ نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔

  آٹھ سال کی محنت کے بعد  " بیلٹ اینڈ روڈ " کا بنیادی ہدف مکمل ہو چکا ہے اور یہ  اعلیٰ معیار کی ترقی کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ گزشتہ 8 سالوں میں "بیلٹ اینڈ روڈ"  کی مشترکہ تعمیر کو احسن طور پر  آگے بڑھایا گیا ہے اور اسے 140 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے مثبت ردعمل ملا ہے، مشترکہ طور پر 2 ہزار سے زائد منصوبے ترتیب دیے گئے ہیں اور مقامی علاقوں کے لیے لاکھوں روزگار کے مواقع میسر آئے ہیں۔

ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک "بیلٹ اینڈ روڈ" کی مشترکہ تعمیر سے دنیا بھر میں 7.6 ملین لوگوں کو انتہائی غربت اور 32 ملین افراد کو معتدل غربت سے نکالنے میں مدد ملے گی۔
عالمی سطح پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو ترقی کے مواقع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ ایک ایسے دریچے کی مانند ہے جس سے ان کی ترقی و خوشحالی کے وسیع امکانات پیدا ہوئے ہیں۔

ماہرین کے نزدیک چین کا حالیہ اعلان کہ دوسرے ترقی پذیر ممالک میں سبز اور کم کاربن توانائی کی ترقی کو فروغ دیا جائے گا  اور بیرون ملک کوئلے سے چلنے والے بجلی کے منصوبوں کی تعمیر نہیں کی جائے گی ، بی آر آئی کو مزید دلکش بنا دیتا ہے۔بی آر آئی دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے اس باعث بھی پرکشش ہے کہ یہ اُن کی ایسی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرتا ہے جنہیں دیگر اداروں یا تنظیموں نے نظر انداز کیا ہے۔

  چین کا بیرون ملک کوئلے سے چلنے والے بجلی کے نئے منصوبے نہ بنانے کا عزم بی آر آئی کو مزید "شفاف اور سبز" بنا دیتا ہے۔
اسی طرح چین انسانی تاریخ میں غربت کے خاتمے کا سب سے کامیاب ماڈل پیش کرتا ہے۔ چین نے دنیا کو دکھایا ہے کہ بہتر انفراسٹرکچر کی مدد سے ترقیاتی کام کیسے ممکن ہیں۔ترقی پزیر ممالک کی اکثریت کا ایک بڑا مسئلہ بدستور غربت کا خاتمہ ہے لہذا اپنی مقامی خصوصیات کے تحت چینی ماڈل سے استفادہ یقیناً اُن کے بہترین مفاد میں ہے ۔

بی آر آئی میں ترقی پذیر ممالک کی دلچسپی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ وہ راستہ ہے جو افرادی قوت کی سائنسی تعلیم ، اعلی درجے کی ٹیکنالوجیز کی منتقلی ، اور  ٹیکنالوجی تعاون کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔یوں ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کے لیے یہ ایک موزوں انتخاب ہے۔چین نے بیلٹ اینڈ روڈ کی صورت میں دنیا کو ایک ایسا متبادل پیش کیا ہے جو  "ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک"  کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے تاکہ سب کی یکساں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

چین کا یہ عالمی ترقیاتی اقدام "متوازن ، مربوط اور اشتراکی ترقی کا داعی ہے۔غربت کے خاتمے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے چین کے اپنے ترقیاتی معجزے نے دوسرے ممالک کو بھی بی آر آئی میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے۔  بیلٹ اینڈ روڈ  کے "جامع مشاورت،تعمیری شراکت اور مشترکہ مفادات " کے تصورات کو اقوام متحدہ ،جی ٹونٹی ،ایپیک،شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس سمیت دیگر اہم کثیرالجہتی پلیٹ فارمز کی دستاویزات میں شامل کیا گیا ہے جو اس پر عالمی اعتماد کا عمدہ مظہر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :