”سٹریٹجک آئل “ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟

جمعہ 28 دسمبر 2018

Shahid Nazir Chaudhry

شاہد نذیر چودھری

دنیا میں تیل کی جنگ جاری ہے اور یہ بالکل کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ دنیا میں معاشی اور دفاعی اعتبار سے بالادستی حاصل کرنے کے لئے سرگرم عمل ملکوں نے ”سٹریٹجک آئل “پر کام شروع کررکھا ہے ۔پچھلی صدی سے تیل کے ذخائر پر قابو پانے اور تیل کی مارکیٹ پر اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے ”آئل ڈپلومیسی اور سٹریٹیجی “ کو بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔

جنگ عظیم دوئم میں اگر اتحادی قوتیں جرمنی جیسے طاقتور ملک کو شکست فاش دینے کے لئے اسکے تیل کی ریفائنریز،ڈپووں اور ایندھن تیار کرنے والے بڑے کارخانوں کو تباہ نہ کردیتیں تو جرمنی پر قابو پانا انتہائی مشکل ہوجاتا۔خلیجی جنگ میں عراق نے کویت کے سات سو کنووٴں کو تباہ کردیا تھا اور قریب تھا کہ کویت کو اپنا باجگزار بنا لیتا مگر امریکی اتحادیوں کی مدد سے کویت نے عراق کے جارحانہ حملوں سے نکلنے کی کوشش کی مگر دنیا کے دس بڑے تیل فراہم کرنے والے ملکوں میں نمایاں طورپر مضبوط ملک کویت کو بھی تیل کے کنووٴں اور دیگر ڈپووٴں کی تباہی کے بعد سنبھلنے میں کافی عرصہ لگ گیاتھا ۔

(جاری ہے)

امریکہ نے بعد ازاں نائن الیون کے بعد بھی عراق پر حملہ کرتے ہوئے اُسکے تیل کے ذخائر کو قابو کرنے کی حکمت عملی اپنائی تاکہ عراق کی عسکریت اور دفاعی قوتوں کو کمزور کیا جاسکے ، یہی حکمت عملی دہشت گرد تنظیم آئی ایس ایس آئی نے بھی عراق میں اپنائی اور عراق کی بعض آئل ریفائنریز اور ڈپووں پر قبضہ کرکے قوت حاصل کی ۔لیبیا میں باغیوں نے آئل سٹریٹجی کو استعمال کرکے اس ملک کو دیوالیہ اور ناکام ریاست بنادیا ۔

کئی دیگر ملکوں بھی جہاں خانہ جنگی اور بیرونی و اندرونی دہشت گرد قوتوں کے ساتھ جنگیں جارہی ہیں وہاں سب سے پہلے تیل کے ذخائر اور مارکیٹ کو مفلوج کیا جاتا ہے تاکہ مزاحمت اور مدافعت کو کمزور کرکے ملک کوختم کیا جاسکے ۔ دہشت گردی اور جنگ میں اُلجھے ملکوں کے لئے یہ سبق نوشتہ دیواربن چکا ہے لہذا ہر وہ ملک جہاں ایسی صورتحال کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں تیل کے ذخائر کو وسعت دی جاتی اور ان ذخائر کو محفوظ رکھنے کے لئے ترجیحا ً کام کیا جاتا ہے ۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان جو کہ ماضی میں کشمیر سے کارگل تک جنگیں نبٹا چکا ہے اور گزشتہ سترہ سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اُسکی ”سٹریٹجک آئل “ کے لئے کوئی پالیسی ہی نہیں ہے ؟ حالانکہ پچھلے ستر سال سے قومی و دفاعی سالمیت کے اس اہم ترین معاملہ پربحث و مباحثہ کیا جارہا ہے۔اسکی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں اور اسکا درحقیقت ذمہ دار کون ہے کہ جس کی وجہ سے ملک میں کسی بھی ناگہانی جنگی صورتحال میں ملک میں تیل کے ذخائر کو کم از کم پینتالیس روز تک یقینی طور پر قابل استعمال بنانے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں ۔


گزشتہ دورحکومت میں ”سٹریٹجک آئل “ پر وزیر پیٹرولیم اورپیٹرولیم کے تحقیقی اداروں نے کھل کر کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں ”سٹریٹجک آئل “ کی کوئی پالیسی نہیں ہے جبکہ یہ وقت کی ناگزیر ضرورت ہے ۔پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں مصروف ہے اور معمول کی ضروریات سے زیادہ تیل کے ذخائر کو محفوظ رکھنا اُسکی اہم ترین دفاعی ضرورت بھی ہے مگر نہ جانے اس جانب پیش رفت کیوں نہیں کی گئی ۔

اس کا ذمہ دار اوگرا کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ اُسکی اس ضمن میں اب تک کیا کارکردگی رہی ہے اور وہ اس اہم ترین قومی و دفاعی منصوبے پر کیوں عمل نہیں کراسکا ۔یاد رہے کہ پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کا آئل سٹریٹیجی کے لئے ایک مکمل ادارہ ”انڈین سٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو“برسوں سے کام کررہا ہے جو اس شعبے میں اپنی کارکردگی سے ”سٹریٹجک آئل “ کویقینی بناتا ہے ۔

جبکہ ہمارے ہاں ”اوگرا“ کسی مرد بیمار کی طرح رسمی کارروائیوں میں پڑا ہوا ہے ۔اوگرا نے البتہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پابند کیا ہوا ہے کہ وہ کم از کم بیس سے اکیس دن تک کے لئے تیل کوذخیرہ کرنا یقینی بنائیں جبکہ عملاً دس سے تیرہ دن تک ہی یہ تیل ذخیرہ کیا جاتا ہے ۔اس کوتاہی کے پیچھے بہت سی وجوہات کارفرما ہوسکتی ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ اوگرا کی ڈالر پالیسی کو بھی قرار دیا جارہا ہے کہ جس کی بدولت اوگرا نے او ایم سیز(آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ) کو دلبرداشتہ کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ اوگرا کی ڈالر پالیسی کی وجہ سے کمپنیوں کو ہر ماہ اربوں روپے کا گھاٹا ہورہا ہے جس پر انہیں ریلیف بھی نہیں دیا جارہا لہذا ایسے حالات میں اوگرا کا ”سٹریٹجک آئل “ کے منصوبے پر عمل کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے ۔

 پاکستان میں ”سٹریٹجک آئل “کے منصوبے پرفوری کام کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔اس وقت دیکھا جائے تو امریکہ ،چین ، ہالینڈ ،برطانیہ جیسے بڑے ملکوں نے ”سٹریٹجک آئل “ کا ماڈل تیار کرلیا ہے جس کی تقلید میں ترقی پذیر ملکوں اور خاص طور پر وہ ملک جنہیں جغرافیائی طور پر پیدائشی دشمن ملک نصیب ہوئے ہیں وہاں ”سٹریٹجک آئل “ کو مارکیٹنگ کمپنیوں کی مدد سے بہترین شکل میں ترقی دی جارہی ہے ۔

البتہ پاکستان میں ہنوز اس معاملہ میں کوتاہی برتی جارہی ہے ۔اوگرا کو چاہئے کہ وہ او ایم سیز کی مدد سے ایسی جامع حکمت عملی بنائے کہ پاکستان کسی بھی ناگہانی صورتحال میں ”سٹریٹجک آئل “ کامنصوبہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔اس کے لئے او ایم سیز کو اعتماد میں لینا بھی انتہائی ضروری ہے ۔پاکستان پیٹرولیم توانائی کے کسی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

پی ٹی آئی کی حکومت کا ویژن بھی یہی ہے کہ وہ ملک کو معاشی اور اقتصادی طور پر مضبوط اور خوشحال ملک ریاست بنانا چاہتی ہے ۔ اوگرا کوقطعی طور پر ایسی پالیسیاں نافذ کرنے سے گریز کرناچاہئے کہ جن کی وجہ سے ملک میں معمول کے حالات میں بھی تیل عدم دستیاب ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجائے ۔ ”سٹریٹجک آئل “ منصوبہ معیشت اور دفاع کی مضبوطی کی ضمانت ہے جو پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کے اداروں کی مرہون منت ہے ،اوگرا اس ضمن میں کیا قدم اٹھاتا ہے ،یہ اسکی اہم قومی ذمہ داری کا امتحان ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :