نیا پاکستان اورنیا صحافتی انتظام

بدھ 13 فروری 2019

Shahid Nazir Chaudhry

شاہد نذیر چودھری

ایوان صدر کی پُرشکوہ عمارت سے آج بھی جلالت ٹپکتی ہے ،سفیدی میں لپٹی عمارت کی عفونت زدہ سیاہی تو اب دھل چکی ہے اور قیاس نہیں کرنا چاہئے کہ اب اسکی سیاہی سے جمہوریت کا مستقبل تاریک ہوسکتا ہے ۔وجہ؟ اس کا وہ مکین ہے جس پر ملک کا آئین اور اسکی سیاسی جمہوری تقدیر قیاس کرتی ہے ۔جمہوریت اور آئین کا سرمایہ اسکے دست شفقت میں زیادہ پھل پھول سکتااور محفوظ رہ سکتا ہے۔

موجودہ مکین کا گمان ہے کہ آئین کی روح پر چلتے ہوئے صدر کو جمہوریت پر شب خون نہیں مارنا چاہئے ۔یہ گمان کہاں تک ثابت قدمی پر قائم رہتا ہے اسکا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے ۔تاہم بھروسہ بھی کوئی چیز ہے ۔ایسا بھروسہ اب ڈاکٹر عارف علوی پر بھی کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔وہ اپنی پارٹی کو کوئی ”چنوتی“ دینے پر رضا مند نہیں۔

(جاری ہے)

مگر کیا کہیے کہ اقتدار و اختیار کے کھیل میں کل کیا ہوجائے ؟لوگ تو چیونٹیاں بھرنے سے باز نہیں آرہے۔

 
 ڈاکٹر عارف علوی ایک پروفیشنل مسیحا ہیں تو نباض سیاست بھی ۔وہ تخت صدارت پر متمکن ہیں اور چاہتے ہیں کہ انکے مسیحا ہونے کا فائدہ قوم بھی اٹھائے اور ستم گزیدہ آئین بھی ، وہ خاردار سیاست سے گذر کرتاجدار سیاست بنے ہیں ،عمران خان ان کا اپنا وزیر اعظم اور محبوب ہے ۔ان کا بیانیہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام کی بازگشت جتنی چاہے بڑھ جائے ،وہ اس کی تائید و نفی کے کسی عمل کا حصہ بن کر نئی بحث نہیں چھیڑنا چاہیں گے ۔

صدر پاکستان کی حیثیت سے آئین نے انہیں جو ذمہ داریاں عطا کی ہیں ،ان پر عمل عملاً کریں گے ۔وہ صرف پی ٹی آئی کے نہیں بلکہ پوری قوم اور ہر جماعت کے صدر ہیں ۔نئے پاکستان کی تعمیر میں وہ اپنی ڈومین میں رہتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کریں گے اوریہ کام اس طرح کریں گے کہ ثمرات و نتائج نظر بھی آئیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلتا رہے کہ ان کا صدر بھی جاگ رہا ہے ۔

سچ کہتے ہیں وہ ،تاریخ پاکستان میں کئی ایسے صدورکا بھی ذکر موجود ہے جو ایوان صدر کو سرائے سمجھ کر سوتے ہی رہے۔ 
میں اپنے ہر دلعزیز دوست اور صحافیوں کے غم خوار ذوالفقاراحمد راحت کو دعا دوں گا کہ انہوں نے صحافتی بحران میں تڑپتی اپنی برادری کے رنج و الم کوقوت بنا کر انکی بقا کے لئے ایوان صدر میں صدر پاکستان کے سامنے اپنا دل کھول کررکھ دیاہے ۔

مزے کی بات یہ ہے کہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بھی ان کا دل رکھ لیا ہے اور انکے دل کی باتوں کو دل و جان سے خاص طور پر یونیورسٹیوں میں اپلائی کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے ۔دیکھا جائے تو موجودہ سکہ بند صحافتی قیادت کے ذمہ جو کام تھا ،اسکو ون مین آرمی ذولفقار راحت نے انجام دے دیا ہے ۔ایوان صدر میں انہوں نے نئے پاکستان میں نئے صحافتی انتظام کا بیڑہ اٹھانے کا اعلان کردیا ہے اور اسکے خدوخال بھی واضح کردئیے ہیں کہ نئے پاکستان میں نیا صحافتی نظام کیسا ہونا چاہئے،یہ کیسا ہوگا اور اسکے لئے انکی پرعزم ٹیم کیا کرنے جارہی ہے ۔

ذوالفقار احمد راحت نے پاکستان جرنلسٹ فاونڈیشن قائم کی ہے جس میں تعلیم یافتہ اور کہنہ مشق کالم نگار ایڈیٹرز،رپورٹرز اور ہر شعبہ کی قدآور شخصیات شامل ہیں جو واقعی میڈیا چینج کی حامی ہیں ۔وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان میں ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت میں میڈیا کے ضابطہ اخلاق اور قوم و ملت کی تعمیرمیں بنیادی کردارا دا کیا جائے ۔میڈیا انڈسٹری کی نئی کھیپ کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ورکشاپس کرکے انہیں عملی صحافت اور خالصتاً پاکستانی صحافت کے اصول و ضوابط پر استوار کیا جائے ۔

انکی بطور صحافی کردار سازی کی جائے تاکہ ملک میں میڈیا افراتفری اور نفاق کا باعث نہ بنا رہے ،سب سے پاور فل اپوزیشن کے طور پر بھی اسکا کردار زندہ رہے،اسکو آزادی اظہار حق بھی ملے اور ریاست کے تحفظات بھی محفوظ رہیں ،صحافیوں کے لئے لیبر قوانین پر سختی سے عمل کراکے انکے مستقبل کو لاحق خدشات بھی دور کئے جائیں ۔میڈیا ریاست کے ساتھ مذاکرات کرکے ہی اپنے ملک اور قوم کا رہنما بن سکتا ہے ۔

ترقی کرنے والے ملکوں کی میڈیا ہسٹری پڑھ کر اس بات کے وزن کو تولا جاسکتا ہے کہ ان ملکوں نے سب سے پہلے اپنے ریاستی وجود اور استحکام کے لئے میڈیا سے کیا کام لیا ،ایسا کام ہمارے لوگ بھی کریں گے تو یقینی طور پر پاکستان کااستحکام اور تشخص بہتر ہوگا۔اسکے لئے پاکستان جرنلسٹ فاونڈیشن نے باقاعدہ آغاز کردیا ہوا ہے تاکہ ریاست اور صحافت کے مابین پائیدار پل بن کرمضبوط اصلاح احوال کی جائے ۔

 
لاہور ،کوئیٹہ اور اسلام آباد سمیت کئی شہروں سے راحت جی کے رفقا ان کے جلو میں ایوان صدر مجمتع ہوئے تھے،کس کس کا نام لیں ،جاوید اقبال کارٹونسٹ،انیق ناجی،محسن گورایہ،علی احمد ڈھلوں ،صغریٰ صدف،عدنان ملک ،اشرف سہیل،چودھری شہزاد،نعیم ثاقب ،ہمایوں سلیم،امجد اقبال ،فاطمہ سیف…سینئیر صحافیوں کی ایک مالا پروکر وہ ہر ہیرے اور نگینے کے ساتھ ایوان صدر میں براجماں ہوئے تھے ۔

رانا عمران جیسا سنگی ان کے سنگ اپنے نقطہ نظر کو واضح کرنے کے لئے قدم بہ قدم تھا ۔اس روز ایوان صدر میں علی احمد ڈھلوں نے اپنے بظاہر ڈھیلے ڈھیلے انداز میں بڑا زور دار دھماکہ بھی کیا تھا ایسا سوال کردیا کہ جس میں پوری قوم کا احساس اور حساسیت موجود تھی کہ دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہونے والے سویلین کو مراعات کیوں نہیں دی جارہیں ،پولیس کے شہدا سے امتیازی سلوک کیسا ؟میڈیا ورکرز کو یتیم کیوں کیا جارہا ہے ؟ چار دوستوں نے انتہائی جامع اور مہذبانہ مہارت سے چار سوالات کئے اور اس ملاقات میں یہ تاثر چھوڑ دیا کہ پی یو جے کے اراکین خود صحافتی ضابطہ اخلاق کے معلم ہیں اور وہ شائستگی اور نظم و ضبط پر کمپرومائز نہیں کرتے ۔

یہ رویہ ہی دراصل پاکستان میں نئے صحافتی نظام کی تشکیل کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے ،البتہ اس کا ”انتظام“ کرنا ضروری تھا ۔ یہ انتظام قائدانہ جوہر اور کردار سے ممکن ہوتا ہے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں سینکڑوں صحافتی تنظیمیں اسی دعوے کے ساتھ معرض وجود میں آتیں اور لفافوں میں بند ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ اس سٹیٹس کو اور کلچر کو ترک کرکے ہی پاکستان میں میڈیا کے حقیقی کردار کو موقع دینا ہوگا ، اسی میں نئے پاکستان کی بقا بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :