پیٹرول کا کھلا غیر قانونی دھندہ،کیا بڑی آئل کمپنیاں بھی ملوث ہیں

جمعرات 9 مئی 2019

Shahid Nazir Chaudhry

شاہد نذیر چودھری

پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کے درپردہ غیر قانونی دھندہ اور اجارہ داری کا نظام بھی چل رہا ہے ،ایک جانب ایران سے روزانہ چھ لاکھ لٹر ڈیزل سمگل کرکے پاکستان پہنچایا جارہا ہے تو دوسری جانب پیٹرول میں ملاوٹ کرکے ملک بھر میں سپلائی کی جارہی ہے ۔ بڑی آئل کمپنیوں کے پیٹرول پمپموں کا معائنہ کیا جائے تو یہ راز کھل جائے گا کہ پاکستان میں ناقص پیٹرول کیسے اور کہاں سے آرہا ہے۔

اس ناقص پیٹرول کی بڑی کھپت چھوٹے پیٹرول پمپوں اور بازاروں میں کھلنے والی مشروم پیٹرول شاپس میں صرف ہوجاتی ہے ۔
 آپ کو شہروں میں جا بجا پیٹرول پمپ تو نظر آتے ہی ہیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر قائم گلی محلوں میں چھوٹی چھوٹی دکانوں اور چوراہوں میں بھی ایسی پیٹرول شاپس کھل چکی ہیں جنہیں اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

گنجان بازاروں میں قائم یہ پیٹرول شاپس انتہائی خوفناک سکیورٹی رسک ہیں ،یہ بارود کے ڈھیر ہیں جو خدانخواستہ کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتے ہیں ۔

پیٹرولیم رولز کے مطابق گنجان علاقوں میں تو پیٹرول پمپ قائم کرنا بھی منع ہے ،کجا بازاروں میں ایسی شاپس کا کھلا کاروبار ۔۔۔
اس بارے تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ یہ سارا دھندہ قانونی ہے مگر بڑ ے شہروں میں خاص طور پر پیٹرولیم مافیا اس کاروبار میں ملوث ہے ،یہ مافیا پیٹرولیم کمپنیوں سے پیٹرول سستا خرید کر ان چھوٹی چھوٹی دوکانوں پر بیچتا ہے ۔


پچھلے دنون ایک پولیس سب انسپکٹر سے ملاقات ہوئی تو انکشاف ہوا کہ موصوف نوکری کے علاوہ پیٹرول کا بھی دھندہ چلاتے ہیں ،لاہور کے بازاروں اور پسماندہ علاقوں میں بہت سے اڈوں پر پیٹرول سپلائی کرتے ہیں ،پوچھنے پر پورے اعتماد سے بتایا کہ یہ ایسا بڑا غیر قانونی کام نہیں۔بڑی کمپنیوں کا دھندہ ہم جیسے ڈیلروں کے سر پر چلتا ہے ۔ہمارا بیک وقت کئی کمپنیوں سے رابطہ ہوتا ہے ،جو سستا دے ،اس سے اٹھا لیتے ہیں ،ہر مہینے کم از کم دو تین لاکھ لٹر پیٹرول لیتے ہیں اور پھر ہم چھوٹے پیٹرول پمپوں کو فروخت کردیتے ہیں جس سے ہمیں ہر ماہ چارپانچ لاکھ روپے کی بچت ہوجاتی ہے ۔


یہ تو ایک پولیسوالے کی بات ہے ،کئی اور اداروں سے وابستہ لوگ بھی یقینی طور پر اس دھندے سے وابستہ ہوں گے ۔جو اپنے اثرو رسوخ سے پسماندہ علاقوں میں ان پیٹرول شاپس کا تحفظ بھی کرتے ہوں گے ،غیر قانونی دھندوں کی حفاظت کے نام پر منتھلیاں وصول کرنا ہمارے ہاں عام کاروبار بن چکا ہے ،کسی بھی ریڑھی والے سے پوچھ لیں ، میڈکل سٹورز سے معلوم کرلیں ،ہر کوئی محکمانہ بھتہ دیتا ہے اور کاروبار چلاتا ہے ۔

پیٹرول شاپس بنا کر غیر قانونی دھندہ کرانے والے بھی باقاعدہ بھتہ لیتے ہیں اور سرکار کو اس کا اچھی طرح علم ہے۔
پیٹرول دوکانوں میں تو بکتا ہی ہے ،یہ کاروباری رواج اتنا تیز ہوا ہے کہ اب پھٹوں پر بھی سرعام اور کھلا بکتا ہے ،کراچی سے خیبر تک عام کاروبار ہے یہ ، کئی بار اس سے خوفناک حادثے ہوچکے ہیں ،گجرات میں ایک سکول بس ایسے ہی کھلے عام فروخت ہونے والی پیٹرول شاپ کی وجہ سے جل گئی اور اس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئی تھیں، سپریم کورٹ نے اس پر ایکشن لیاتھا اور کھلے عام پیٹرول بیچنا غیر قانونی قرار دیا تھا ۔

جبکہ پی ایس او کو بھی انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ وہ اس کاروبار کو مانیٹر کرے ۔کھلے عام پیٹرول کی فروخت پیٹرولیم رولز 1985کی دفعہ 21کے تحت سنگین جرم ہے لیکن اس جرم کی آبیاری کرنے میں قانون نافذکرنے والے بھی ملوث ہیں ۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایران کے ساتھ تو حکومت نے اب معاہدہ کرلیا ہے اور ایران نے بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ ڈیزل اور پیٹرول کی پاکستان میں سمگلنگ کو روکے گا لیکن ملک کے اندر غیر قانونی طور پر پیٹرولم مصنوعات کا دھندہ کرنے والوں کو کون پکڑے گا ،جو بڑی کمپنیاں ڈیلروں کو سستے داموں پیٹرول دیتی ہیں ،ان سے حساب کون لے گا ،پی ایس او اور اوگرا اس ضمن میں دعوے تو کرتے ہیں کہ وہ غیر قانونی طور پیٹرولیم مصنوعات کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کا چالان کرتے ہیں مگر ابھی تک میڈیا پر ان کی کوئی ایسی موثر کارروائی سننے کو نہیں ملی ۔

شایدانہیں اس دن کا انتظار ہے کہ خدانخواستہ ان پیٹرول شاپس سے کوئی بڑا حادثہ رونما ہو تو وہ کچھ ہاتھ پیرہلائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :