
اک گوہر نایاب!
جمعہ 18 دسمبر 2020

شیخ جواد حسین
میرے متمع نظر ہمیشہ سے ایسے ہی لوگوں کی زندگی کے پہلوؤں کو اجاگر کرکے عوام کے سامنے لانا ہے۔
(جاری ہے)
ایسے خوبصورت لوگوں کے کردار کی بدولت معاشرے پر بے حد مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مگر کسی نہ کسی طرح وہ جذبہ خدمت،انسانی قدروں اور اقدار کے مصداق ٹھہرتے ہیں۔ان کا کردار معاشرے کو ناصرف قائم و دائم رکھنے کا موجب بنتا ہے بلکہ ازسر نو تشکیل بھی دیتا ہے۔یہ خاموش سپاہی اپنی زندگی میں اپنے کردار سے ایسی شمع روشن کر جاتے ہیں کہ ان کے جان،جان آفریں کے سپرد کرنے کے باوجود اس دیے کی لو معاشرے میں رہ جانے والوں کیلئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔میری نظر سے ہر روز ایسے بے شمار کردار گزرتے ہیں جو ہمارے معاشرے کے اہم جزو ہیں ان کے بغیر شاید ہم زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ان کرداروں میں حقیقی جزو ان کی محب الوطنی،نیکی اور بھلائی،سچائی اور خدمت خلق جیسی بے شمار خوبیاں ملتی ہیں۔یہ تو جگنو کی طرح اندھیروں میں روشنیاں بانٹتے اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو راستہ دکھاتے ہیں انہی لوگوں کے کردار اور جذبہ خدمت کی بدولت پاکستان کے محروم طبقات کسی نہ کسی طرح زندہ ہیں۔یہ لوگ درحقیقت صحیح طور پر معاشرے میں باپ کا کردار ادا کرتے ہوئے خاموشی سے جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔اگر احساس ہوتا ہے تو ان مرحوم طبقات کو جو ان سے کسی نہ کسی طرح سے فیض حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک گوہر نایاب کا نام محبوب الٰہی ہے۔ جنہوں نے ساری زندگی اپنے وطن پاکستان کی عوام کی خدمت کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی خدمت اور انسان دوستی کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ جن کو جان کر آپ کو شاید یہ بہت معمولی اقدامات محسوس ہوں مگر شاید ان چھوٹے چھوٹے اقدامات کے دور رس نتائج کو جان کر آپ یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ان جیسے عظیم لوگوں کی وجہ سے ہی ان کے اردگرد بسنے والے لوگوں کی زندگی کا دارومدار ہے کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو حکومت کی عنایات سے محروم اپنے مسائل کے گرداب کا حل صرف ان جیسے عظیم لوگوں کے پاس ڈھونڈتے ہیں اور کبھی مایوس نہیں لوٹتے۔
محترم محبوب الٰہی محروم اور پسے ہوئے طبقات کے حکیم تھے۔ وہ ہر مرض کا علاج بغیر کسی لالچ اور طمع کے کرتے چلے گئے، معاشرے کی نبض کو پہچان کر اس کی مسیحائی کی اور لوگوں کے دکھ درد اپنے دامن میں سمیٹ کر ان کی مدد میں دن رات ایک کیے رکھا،زندگی کا آغاز یتیمی سے ہوا،بچپن ہی سے والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیااور بے شمار مشکلات میں زندگی بسر کی،گھر میں سب سے چھوٹے ہونے کے باوجود بڑے بن کر بہن بھائیوں کی شادیاں کروائیں،ان کو ملازمتیں دلوائیں حتی کہ بچوں کی شادیاں میں ان کا ساتھ دیا،ایک عام محنت کش کی طرح ایک چھوٹی سی دکان سے کاروبار شروع کیا اور اس دائرے کو دن رات کی محنت سے وسیع کرکے لندن تک پھیلایا، اپنے گردو نواح کے تمام افراد کیلئے ہمیشہ سایہ شفقت بنے رہے وہ افراد لندن میں ہوں یا راولپنڈی میں خدمت خلق کا فریضہ نبھایا۔ڈھوک اسو میں پانی کی شدید قلت کے باعث عوام نے ان سے مدد کیلئے گزارش کی تو انہوں نے اپنے ذاتی بورنگ پانی سے پورے علاقے کو پانی کی فراہمی کیلئے انظامات کر کے دیے،اہل خانہ نے شکوہ کیا کہ ابا جان بورنگ میں پانی کی مقدار بہت کم ہوگئی ہے کیا اہل علاقہ پر پانی کی پابندی لگادیں،نہیں تو ہمارے لیے مشکلات پیدا ہونگیں۔پر اس ولی اللہ نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ بورنگ کا پانی اگر ختم بھی ہو جائے تب بھی اس کو بند کرنا مناسب نہیں،جہاں پانی اہل علاقہ کیلئے ختم ہو جائے گا وہاں ہمارے لئے بھی ختم ہو جائے گا،ان کا بھی اللہ وارث ہے اور ہمارا بھی۔ہر شخص جس نے ان کے جنازہ میں شرکت کی اس نے ان کی بہت تعریف کی اور بے شمار لوگوں نے ان کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا۔
غریبوں کی امداد کرنا، چھپ کرخاموشی سے مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنا،اپنے بڑے بھائی کو بچانے کیلئے کنوئیں میں بھی چھلانگ لگانے سے گریز نہ کرنا،یہاں تک کہ کئی روز اپنی ہڈیوں کے فریکچر ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہونا، اور اس سے بھی بڑھ کر جب بھائی کو بچا نہ سکے تو ساری زندگی ان کی یتیم اولاد کو پالا اور بہترین تعلیم سے نوازا،اپنے گھر کی تعمیر میں خود مزدوری کی اور جو رقم اس سے بچی وہ مسجد کی تعمیر میں صرف کر دی اور کچھ غریبوں کیلئے مختص کر دی۔
محترم محبوب الٰہی محروم نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ سخت محنت میں گزارا،کبھی پہننے، کھانے پینے اور رہن سہن میں اصراف نہیں کیا،لندن کی مساجد کی تعمیر ہو یا مشکل وقت میں پاکستانی نوجوانوں کی خدمت ،وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔اکثر کہا کرتے تھے کہ میں نے لندن میں رہ کر بھی کبھی کار کا استعمال اس لئے نہیں کیا کہ وہی رقم کسی بہترین کام کیلئے خرچ کی جاسکے۔اسی بات پر مجھے حضرت عثمانکا وہ مشہور واقعہ یاد آ گیا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کے تقاضا کرنے پر اس کو حضرت عثمان کے گھر بھیجا اور کہا کہ ان سے کہہ دو کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے بھیجا ہے اور وہ تمہاری مدد کر دیں گے۔ایک روزوہ شخص حضرت عثمان کے گھر گیا، دروازے پردستک دی اور کہا مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے،آپ گھر سے باہر تشریف لائے اور اشرافیوں کی تھیلی اس شخص کے حوالے کردی،وہ شخص بہت حیران ہوا۔ حضرت عثمان نے کہا کہ میں تو تمہارا کئی دنوں سے انتظار کر رہا تھا مگر تم بہت دنوں بعد آئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے تمارا ذکر فرمایا تھا۔جواب میں اس شخص نے کہا کہ دراصل میں آیا تھا لیکن گھر سے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں سن کر میں واپس چلا گیا تھا کیونکہ آپ اپنی بیویوں کو ڈانٹ رہے تھے کہ دیا شام سے قبل کیوں جل رہا ہے اور آپ تکرا کر رہے تھے کہ تیل کا زیادہ خرچ درست عمل نہیں اور اس سے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے ۔میں نے سوچا کہ جو شخص بیویوں سے ایک قطرے قطرے کی باز پرس کر رہا ہے وہ تو بے حد غریب ہوگا، اس لئے میں واپس لوٹ گیا مگر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا، اس کی ساری بات سُن کر آپ مسکرائے اور کہا کہ اگر میں تیل کے ایک ایک قطرے کا حساب نہ لیتا تو آج اس رقم کو بچا بچا کر تمہاری خدمت میں کیسے پیش کر تا کیونکہ تمہیں اس کی اشد ضرورت ہے، بالکل اسی طرح محترم محبوب الٰہی بھی ایک ایک قطرہ بچا کر اپنے غریب رشتہ داروں، ہمسائیوں،غریبوں،یتیموں، بے سہاروں اور مساجد میں چندے کے طور پر خرچ کرتے تھے۔جب مجھے ان کے جہان فانی سے رخصت ہونے کا علم ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ آج بہت سے لوگوں کے سر سے سایہ شفقت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اُٹھ گیا ہے،بے شمار پراجیکٹس بند ہو گئے،کیونکہ 19مئی کی رات بارہ بج کے تیس منٹ پر یہ گوہر نایاب لندن میں ہارٹ اٹیک آنے کے بعد جوکہ نماز عشاء کے دوران ہوا اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
میرااس عظیم شخصیت کی حیات پارینہ کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ان کی حیات جاں دوانی جو انہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق گزاری وہ ہم سب کیلئے مشعل راہ ثابت ہو اور ہماری اندھیروں میں ڈوبی ہوئی زندگیاں روشنیوں کی طرف گامزن ہو سکیں اور ہم بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کر کے غریبوں،یتیموں،بے سہاروں اور بے کسوں کے مددگار بن جائیں، ہم ہلکے ہوں یا بوجھل ہر حالت میں دوسروں کے ہمدرد بن جائیں۔خدا اس ماہ رمضان کی برکت سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور ہمیں اسراف کی بجائے اپنے مال کواپنی کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور محترم محبوب الٰہی(مرحوم)کی زندگی کی مہک پوری دنیا تک پھیلا دے اور ان کی خدمات و اعمال صالح کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔آمین
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
شیخ جواد حسین کے کالمز
-
صدی کا بیٹا ۔سید علی گیلانی
جمعرات 23 ستمبر 2021
-
بھارت پرانی غلطیاں نہ دہرائے
پیر 30 اگست 2021
-
الیکشن اور اصلاحات
منگل 10 اگست 2021
-
شکست فاش
جمعہ 23 جولائی 2021
-
اُمیدوں سے افسوس تک……
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
اسلامو فوبیا کی وجوہات اور ہماری ذمہ داریاں
جمعرات 1 جولائی 2021
-
بجٹ تماشہ
جمعہ 25 جون 2021
-
افغانستان سے امریکی انخلا……حکمت یا شکست
ہفتہ 12 جون 2021
شیخ جواد حسین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.