افغانستان سے امریکی انخلا……حکمت یا شکست‎

ہفتہ 12 جون 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

دنیا کی تاریخ جنگوں اوران کی ہولناک تباہ کاریوں سے بھری پڑی ہے۔ بد قسمتی سے جنگوں کے بعد تقریباً ہر خطے کی صورت حال یکسر ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ جنگوں کو عمومی طور پر دو اقسام میں تقسیم کیا جاتاہے۔ پہلی قسم کو روائتی یا گرم جنگ بھی کہا جاتا ہے، جبکہ دوسری قسم سرد جنگ کی ہے جو سفارتی، تجارتی یا نظریاتی جنگ کہلاتی ہے۔ اس کی بہترین مثال روس،امریکہ اور چین کے مابین جاری سرد جنگ ہے، اس کے علاوہ پرانے دور کی گوریلا اور جدید دور میں تھرڈ جنریشن واربھی اسی کا حصہ ہیں ……جنگوں کی روایات سے ہٹ کر کسی بھی ملک میں بے جا دراندازی کرنا،یعنی بغیر کسی وجہ یا قصور کے کسی قوم و ملک پر جنگ مسلط کرنے کو فریب، مکاری، بزدلی اور پیچھے سے وار کرنے کے مترادف گردانا جاتا ہے،جو روائتی جنگوں کے اصولوں کے منافی ہے، مگر ان جنگوں یا دراندازیوں کے اثرات و نقصانات کا تعین بھی اس خطے میں جنگ کے بعد پیدا ہونے والے حالات یا جغرافیائی تبدیلیوں سے لگایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ان در انداز یوں کی صورت میں کسی بھی محکوم یا کمزور ملک کے لئے سب سے بڑا چیلنج اس ملک کی سا لمیت و جغرافیائی حدود کو برقرار رکھنا ہوتا ہے، لیکن قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ بہت سی قومیں جنگوں یا دراندازیوں کے نتیجے میں اپنی تمام تر مضبوطی و طاقت کے باوجود اپنی جغرافیائی حدود کو برقرار رکھنے میں نہ صرف ناکام رہیں، بلکہ کئی حصوں میں منقسم ہو کر رہ گئیں، مگر اس کے برعکس افغانستان نے ان دراندازیوں کے جواب میں ایک ایسی قوم کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا،جس نے دنیا بھر کی دراندازی کو شکست فاش دے کر،نہ صرف ناکام و نامراد بنایا، بلکہ پوری دنیا کو ایک ایسا سبق سکھایا کہ جسے تا قیامت یاد رکھا جائے گا۔


افغانوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ جنگیں نہ تو اسلحہ کی بنیاد پر لڑی و جیتی جا سکتی ہیں اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا یا جا سکتا ہے،چونکہ زندہ قومیں جنگ صرف اپنے عزم و حوصلے، جذبے، جوش و ولولے، ہمت و پامردی کے علاوہ خدا پر بھروسے سے ہی لڑتی ہیں اور بے شک پھر کامیابی و ناکامی خدا کے ہاتھ میں ہے، اور جب در اندازی کی جائے تو پھر زندہ قومیں سر پر کفن باندھ کر میدانِ کارزار میں اُترتی ہیں اور کشتیاں جلا کر آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں جب تک کہ فتح اُن کا مقدر نہ بن جائے۔

  یہاں یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ جنگ کی طرف جان بوجھ کر جانا  سب سے بڑی حماقت ہے، کیونکہ مسائل کا کڑوا زہر ہمیشہ مذاکرات کی حلاوت و چاشنی کا متلاشی رہتا ہے۔امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوج ہمیشہ کے لیے نکالنے کا  عمل شروع کر دیا ہے، جو خوش آئند بات ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ نصف صدی پر محیط جنگ سے آلودہ خطہ امن کی راہ پر گامزن ہو گا۔

بظاہر تو امریکہ اس کو اپنی کامیابی قرار دیتا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکی کانگریس کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اس جنگ میں تقریباً ایک سو بلین ڈالر سالانہ خرچ کیے۔ پینٹاگون کے اعداد و شمار کے مطابق  2018ء  میں 45 بلین ڈالر اور اگر صرف فوج پر خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ لگایا جائے تو 2001 ء  سے لے کر 2019ء تک امریکی ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 778 بلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے۔


براؤن یونیورسٹی کی ایک حالیہ ریسرچ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ابھی تک 978 بلین امریکی ڈالر افغان جنگ کی نذرکئے ہیں، جبکہ اکنامک  ٹائم کی رپورٹ کے مطابق 2020ء تک امریکہ 23ٹریلن ڈالر تک کا مقروض ہو چکا ہے، جو امریکی آبادی کے مطابق ہر شہری 72309امریکی ڈالرکا مقروض ہے۔کچھ روز پہلے بی بی سی (ریڈیو 4) کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی سفارت کار نے اس عزم کا اظہار کیا کہ،ہم اپنی افواج کو افغانستان سے نکال رہے ہیں، مگر پیچھے نہیں ہٹ رہے، ہم جا نہیں رہے، جب افغانستان کی مدد کرنے کی بات ہو گی تو ہم اس میں مصروف رہیں گے، چاہے وہ معاشی، ترقیاتی یا سیکیورٹی فورسز کی حمایت ہو، ہم گیم میں رہیں گے۔

شاید امریکہ کی موجودہ معاشی صورت حال کے مطابق ایسا ممکن نہ ہو، کیونکہ امریکہ پاکستان سے خود درخواست کر کے افغانستان سے پُرامن انخلا کو ترجیح دیتا ہے،اسی ایما پر قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے، جن کے نتیجے میں امریکہ مزید اس خطے میں اپنا اثرو رسوخ قربان کر کے جلد از جلد نکل جانا چاہتا ہے، اسی تناظر میں امریکہ کبھی اپنا اثر و رسوخ دوبارہ حاصل نہیں کر سکے گا، کیونکہ پاکستان، چین ایران اور روس اس خطے میں ایک متحد طاقت بن کر سامنے آئے ہیں۔


دوسری طرف بھارت امریکی انخلا کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے، کیونکہ امریکہ کے خطے سے نکل جانے کے بعدبھارت نواز افغان حکومت بھارت کے لئے شاید وہ مفادات حاصل نہ کر سکے،  جن کا فائدہ بھارتی حکومت بارہا حاصل کر چکی ہے۔ بھارتی موقف کی حمایت میں کابل میں انسٹیٹیوٹ آف وار اینڈ پیس سٹڈیز کے ایگزیکٹو چیئرمین تمیم آسی نے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے، جس میں حقیقت بہت کم نظر آتی ہے،کیونکہ افغانستان طویل جنگوں کے بعد بھی ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوا، اس کے علاوہ افغانستان کا تقریباً 60 فیصد علاقہ طالبان کے زیر انتظام ہے۔

  طالبان افغانستان کی وہ واحد قوت ہے، جس سے امریکہ قطر میں مذاکرات کر کے ان کی طاقت کا اعتراف کر چکا ہے، جس کے بعد دوسری بڑی سیاسی جماعت حزب اللہ ہے، جس کے سربراہ گلبدین حکمت یار بھی طالبان کے ساتھ مل کر سیاسی و جمہوری جدوجہد کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں، جس سے اْمید کی جا سکتی ہے کہ افغانستان اب دوبارہ خانہ جنگی کا شکار نہیں ہو گا، لیکن اگر ایسا ہوا بھی تو اس کی مدت بہت کم ہو گی۔

اب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ناگزیر ہے، جبکہ خود امریکہ کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم کر لے اور حکمت کے تحت خطے سے بے دخل ہو جائے تاکہ اس خطے کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔اگر مستقبل قریب میں ایسا نہ ہوا جس کا بہت کم امکان ہے، کیونکہ امریکہ اپنی 2600 فوج کا انخلا اور بقیہ دو  ائیر بیسز بھی افغان فورسز کے حوالے کر کے ستمبر تک نکل جانا چاہتا ہے، تو شاید امریکہ معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے یا اس کی معاشی صورتِ حال اس سے بھی بدتر ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :