
بھارت پرانی غلطیاں نہ دہرائے
پیر 30 اگست 2021

شیخ جواد حسین
(جاری ہے)
ایک بار پھر بھارت نے موقع غنیمت جان کر طالبان کے طاقت میں آنے کو جواز بنا کر پناہ گزینوں کو بھارت میں پناہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے ای ویزہ کا اجرا کیا ہے جس کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان کے ہندو اور سکھ برادری کو خاص طور پر بھارت آنے میں ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا،”ہم افغان سکھ اور ہندو برادری کے نمائندوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور اگر وہ افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں بھارت لانے میں ہر ممکن مدد کریں گے۔"
افغان پناہ گزینوں کو بھارت میں لاکر ایک مرتبہ پھر ناصرف تاریخ د ہرائی جارہی ہے بلکہ یہ اعلان صرف خاص طبقہ کے لیے کیا گیا ہے جس کا مقصد ہندو توا کا نظریہ ہے اگر انسانی حقوق کی بات ہوتی تو یہ اعلان افغان مسلمانوں کے لیے بھی کیا جاتا یا پھر مذہبی معاملات کو ایک طرف رکھ کر انسانی ہمدردی کی بات کی جاتی۔
ہندوستان ہمیشہ ہی سے طالبان کو دھشت گرد قرار دیتا آیا ہے اور ان سے بات چیت نہ کرنے پر مصر رہا ہے لیکن اب ھندوستان تذبذب کا شکار ہے کہ چین و پاکستان کے موقف کی حمایت کرے یا علاقے کی بدلی ہوئی صورتحال کے پیش نظر کچھ وقت انتظار کرے اور امریکی موقف کی حمایت کرے افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر گوتم مکھوپادھیائے کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت کے سامنے تین اہم سوالات ہیں۔ امریکا اور نیٹو ممالک کی تربیت یافتہ تین لاکھ سے زیادہ افغان آرمی اور پولیس فورس نے محض 60 ہزار جنگجووں کے سامنے گھٹنے کیوں ٹیک دیےِ؟ یہ کہ افغان مذاکرات کے کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل ہی امریکا نے آخر اپنی فوج کو بلا شر ط واپس بلا لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جبکہ یہ بات تقریباً سب کو معلوم تھی کہ غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد طالبان بڑی تیزی سے پیش قدمی کریں گے۔ لیکن تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کون سا امر بھارت کو طالبان کے ساتھ رابطہ کرنے کی راہ میں مانع تھا اور اب وہ کیا کرسکتا ہے؟ گوتم مکھوپادھیائے کاخیال ہے کہ اب جبکہ طالبان نے افغانستان کااقتدار حاصل کرلیا ہے تو ان کے ساتھ بات چیت کرنے یا نہ کرنے کی بحث محض لفظی نوعیت کی رہ جاتی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر حال ہی میں نیویارک روانہ ہوئے جس میں افغانستان کی صورت حال اور طالبان کے اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے حوالے سے بھی بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو شاید اب اتنا اہم نہیں رہا تاہم خطے میں اتنا اہم واقعہ رونما ہو جانے کے باوجود بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا، جسے نئی دہلی کی پریشانی سے تعبیر کیا جارہا ہے بھارتی میڈیا اور عوام بھارتی حکومت کی خاموشی پر کافی حیران ہیں اور خوف کا شکار ہیں۔اب بھارت کے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے کہ بھارت کشمیر سمیت پاکستان و چین کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات کو حل کرے اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شیخ جواد حسین کے کالمز
-
صدی کا بیٹا ۔سید علی گیلانی
جمعرات 23 ستمبر 2021
-
بھارت پرانی غلطیاں نہ دہرائے
پیر 30 اگست 2021
-
الیکشن اور اصلاحات
منگل 10 اگست 2021
-
شکست فاش
جمعہ 23 جولائی 2021
-
اُمیدوں سے افسوس تک……
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
اسلامو فوبیا کی وجوہات اور ہماری ذمہ داریاں
جمعرات 1 جولائی 2021
-
بجٹ تماشہ
جمعہ 25 جون 2021
-
افغانستان سے امریکی انخلا……حکمت یا شکست
ہفتہ 12 جون 2021
شیخ جواد حسین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.