صدی کا بیٹا ۔سید علی گیلانی

جمعرات 23 ستمبر 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنما سید علی گیلانی  بھی  اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے  آپ  زندگی  بھرانسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے  ان کی دہائیوں پر محیط انسانی حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو صدیوں تک یاد رکھا جائےگا ان کی حق و انصاف کے لیے  کاوشوں پر جتنا لکھا جائے اور خراج تحسین پیش کیا جائےکم ہے
 جب جب کشمیر ی مسلمانوں کی قربانیوں اور خاک و خون کی داستان لکھی جائے گی سید علی گیلانی کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا  آپ کی سب سے بڑی خوبی انسانوں کو انسانیت کا درس دینا اور خدا کی مخلوق سے محبت تھا آپ کے اعلی کردار اور انسان دوستی کی بدولت  آپ کواس صدی کا بیٹا کہا جا سکتا ہے آپ ۱۹۲۹ میں جموں کشمیر میں پیدا ہوئے  پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی اور بحیثیت اُستاد خدمات سرانجام دیتے رہے  ،کشمیر پر بھارت کے غا صبا نہ قبضے کے خلاف روز اوّل سے ہی متحرک رہے  ۲۰۰۴ میں تحریک حریت کی بنیاد رکھی اور کشمیر کی آزادی و انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کا نئے سرے  سے آغاز کیا اس سے قبل آپ مولانا محمد مسعودی سے متاثر رہے  ۱۹۵۰ میں ان کی وفات کے بعد سید علی گیلانی برصغیر کے مشہور عالمِ دین اور جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی کو اپنا استاد مانتے تھے اسی لیے وہ خود جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے ایک رکن بنے اور بہت جلد اس کے چوٹی کے لیڈروں میں شمار ہونے لگے۔

(جاری ہے)

سن 2003 میں اُس وقت کے پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے کشمیری قیادت کو مبینہ طور پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کا گرین سگنل دیا تو سید گیلانی نے اس کی بھر پور اور برملا طور پر مخالفت کی  آپ نے اپنے کردار  سے بہادری ، شجاعت اور پاکستان سے وفاداری کے انمٹ نقوش چھوڑےیہاں تک کے پاکستان سے ایمان کا رشتہ ایسا نبھایا کہ آخری دم تک کشمیر پر پاکستان کے  اصولی موقف کی حمایت جاری رکھی اور پرامن احتجاج کو مشعل راہ بنایا ، پاکستان نے بھی کسی انجام کی پروا کیے بغیر کشمیر یوں کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی امداد ہمیشہ جاری رکھی ۲۰۱۵ میں کشمیر پر بلائی جاننے والی او آئی سی کی میٹنگ میں  سید علی  کوخصوصی طور پر شرکت کے لیے بلایا گیا جہنوں نے اس میٹنگ میں شرکت فرما کر کشمیری عوام کے  انسانی بنیادی حقوق  پر بھارتی شب خون اور کشمیری مسلمانوں کے موقف کو بھرپور انداز میں پیش کیا، سید علی گیلانی کا موقف تھا کہ مسئلہ کشمیر کو اس کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق اور اس کے تاریخی پس منظر میں اقوامِ متحدہ کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔


 اس کے علاوہ ۲۰۱۶ میں برهان مظفر وانی کی شہادت کے بعد اقوام متحدہ کو کئی خطوط لکھے اور نیو یاک کی کشمیر کنٹیٹ کمیٹی کے اجلاس میں کئی مرتبہ شرکت کی اور کشمیر میں بھارتی فوج کی  درندگی کہ جس میں انہوں نے نہتے مسلمانوں کے بے رحمانہ قتل ، خواتین کی عصمت دری  اور پلیٹ گن کے استعمال کو بے نقاب کیا اور جموں کشمیر اسمبلی کے تین مرتبہ رُکن رہنے کے بعد احتجاجاً استعفی دے دیا تاکہ دنیا کو اس آئینی ادارے کی اصل حیثیت اور بھارتی حکومت کی منافقت کا حقیقی معائنوں میں اندازہ ہو سکے۔


دوسری طرف دنیا کی ناکام ترین جمہوریت بھارت جس نے  ابھی تک کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ، ایک بزرگ اور نعیف انسان سے اسقدر خوفزدہ تھا کہ اس کو  کشمیر میں سات لاکھ فوج تعینات کر نی پڑی لیکن تمام تر کو شیشوں کے باوجود سید کی شکل میں کشمیر کی اس مضبوط آواز کو دبانے میں ناکام رھا ، سید اس ظالم و مکار فوج کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑےرہے وہ دنیا کی تاریخ میں ایک عظیم لیڈر بن کر اُبھرے جو یقیننا پوری نوح انسانی کے لیے قابل فخر ہیں۔

کشمیری مسلمان  ان کو تحریک آزادی کشمیر کے بنیادی رُکن کی حیثیت سے جانتے ہیں اور ان کی ایک آواز پر لاکھوں کی تعداد میں کٹ مرنے پر تیار رہتے  اسی خوف کے باعث بھارتی فوج نے سید علی گیلانی کو تقریباً  ۱۵ سال تک گھر پر نظر بند رکھا اور کئی سال قیدو بند کی صعبتیں برداشت کیں مگر اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے بلکہ دنیا کی تحریکوں کے لیے آزادی و خود مختاری کی نئی راہیں متعین کیں آپ کو اس ضمن میں  نیلسن منڈیلاسے کسی طور بھی کم تر لیڈر تصور نہیں کیا جا سکتا۔


آپ نے اپنی کتاب روداد قفس میں  کشمیری مسلمانوں کو ہمت ، حوصلہ، صبر اور خدا پر یقین کا عملی نمونہ پیش کیا اور اپنی مزید کتابوں سے تحریک آزادی کشمیر کو جلہ بخشی نامور صحافی محمد فاروق چوھان نے سید علی گیلانی کو خراج تحسین کچھ یوں پیش کیا کہ “پوری پاکستانی قوم کشمیری حریت  رہنما سید علی گیلانی کی وفات پر افسرده ہے ۔بزر حریت رہنما سید علی گیلانی نے اپنی زندگی آزادی کشمیر کے لیے وقف کر دی تھی ۔

وہ محسن کشمیر اور محسن پاکستان تھے “حریت رہنما غلام محمد صفی نے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ گیلانی صاحب نے اپنی زندگی میں جو عملی نمونہ دنیا کے سامنے رکھا ہے، اس میں یہ چیز کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے کمپرومائز کے قائل نہیں تھے۔ وہ بالکل واضح انداز میں حق خودارادیت کی بات کرتے تھے اور بسا اوقات اپنے بھی ان سے ناراض ہو جاتے تھے۔


 حکومتِ پاکستان نے سید علی گیلانی کو 2020 میں پاکستان کے سویلین ایوارڈ ' نشانِ پاکستان' سے نوازا تھا، جس پر بھارت نے شدید نکتہ چینی کی تھی۔ انھوں نے بھارتی غلامی کے خلاف طویل جدوجہد کی حتی کے اپنی وفات کے بعد بھی مسلۂ کشمیر کو ایک مرتبہ پھر پوری دنیا میں اجاگر کر دیا ان کی خدمات کو ھمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ  سید علی گیلانی کی تحریک آزادی کشمیر کے لیے جدوجهد اور قربانیاں ضرور رنگ لائئیں گی اور جموں و کشمیر جلد آزاد ہو گا اور کشمیری عوام کو ان کے حقوق مل کر رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :