بجٹ تماشہ

جمعہ 25 جون 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

حکومت پاکستان نے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا  تو وزراء کی ساری فوج بجٹ کی تعریفوں کے پل باندھنے میں مصروف ہوگئی پیر کو جب قائدِ حزب اختلاف شہبازشریف نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرنا تھا تو انہیں بولنے نہیں دیا گیا اور اجلاس ملتوی ہو گیا، منگل کا سارا دن اسمبلی کا ایوان میدان جنگ بنا رہا۔  میں ابھی تک محو حیرت ہوں کہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جس کا ہر وزیر معاشیات پر عبور رکھتا ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ عوام کا کسی کو کوئی احساس نہیں۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں کو معلوم ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف کی رہنمائی کے بغیر ترتیب نہیں دئیے جاتے، کیونکہ اگر قرض لیا ہے یا لینا ہے تو اس کی واپسی کا انتظام کرنا بھی حکومت کی اولین ترجیح ہو نی چاہئے، مگر عام آدمی کو تو دو وقت کی روٹی، علاج، تن پر کپڑے اور سر پر چھت چاہئے جو کسی طرح سے بھی حکومتی بجٹوں کا خاصہ نہیں رہا۔

(جاری ہے)

حکومت کا عوام سے محبت کا عالم تو یہ ہے کہ  قوم کوکورونا کے مقابلے کے لئے ملنے والے  345 ارب کی تفصیل تک ٹھیک طریقے سے نہیں بتائی جاتی۔

باقی آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اس سے مزید کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
تین سال رقم بٹورنے کے بعد چند اشیا پر سبسڈی دینے کا ڈھونگ رچانے کا کوئی فائدہ نہیں، اس کی مثال تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی گھرپر ڈاکہ ڈال کر اسی گھر کے مکینوں کو وہی اشیا سستے داموں فروخت کر دی جائیں۔ اگر آپ مخلص ہیں تو پچھلے تین سال سے عوام پر بجلی، گیس، اشیا خوردونوش اور ادویات وغیرہ پر لگائے جانے والے ہوش ربا ٹیکس کو عوام کی جیب میں واپس ڈالیں، سرکاری ملازمین اور پینشنرز میں گزشتہ سال اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے دس کی بجائے بیس فیصد اضافہ کریں،حالانکہ مہنگائی کے اعتبار سے تو پچاس فیصد اضافہ بھی کم ہے۔

ظلم پہ ظلم یہ کہ عام آدمی کی کم سے کم اجرت میں گزشتہ برسوں سے صرف اڑھائی تین ہزار روپے اضافہ کیا گیا، جس کو17500سے بڑھا کر بیس ہزار تک لے جایا گیا۔ اس کے برعکس گزشتہ تین سال میں آٹا، گھی، چینی، دالیں، پیڑول اور صابن کی کل قیمت میں اضافہ سو فیصد سے بھی زیادہ کیا گیا جو عام آدمی کو اجر ت میں اضافے کے تناسب سے ایک فیصد بھی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔

بجلی کی فی یونٹ قیمت میں گزشتہ تین برس میں جتنا اضافہ ہوا ہے اُس کو دیکھ کر پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرنے والا بھی بجلی استعمال کرنے سے گریز کرتا ہے کہ آخری لمحات میں گھروالوں پر بوجھ نہ بنے اب بات کی جا رہی ہے اس احسان کی کہ حکومت نے بجلی پر سبسڈی کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ کسان و مزدور اس بجٹ کی ب سے بھی واقف نہیں سب لفاظی اور نمبروں کا گورکھ دھندا ہے۔

ملکی قرض میں ہر سال اضافہ ہو جاتا ہے گزشتہ قرض اتارنے کی شاباش وصول کرکے نئے قرضے لے لئے جاتے ہیں۔
ماہر معاشیات ملک میں بدترین افراط زر کی نوید سنا رہے ہیں، جس کا دس فیصد سے بھی بڑھ جانے کا اندیشہ ہے۔ ڈالر کی قیمت میں بھی پچھلے تین سالوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا،جس کے باعث ملکی قرض میں بھی بھاری اضافہ ہو ا، بلکہ اس کا بوجھ سیدھا عوام الناس پر پڑا۔

اب کمال یہ ہے کہ بائیس کروڑ عوام کے لئے تعلیم و صحت کے شعبہ پر نہ ہونے کے برابر خرچ کیا جا ئے گا کیونکہ 1.1 ارب جو صحت کے شعبہ کے لئے مختص ہوئے ہیں اس میں سے بڑی رقم ویکسین خریدنے پر خرچ کی جائے گی۔  دوسری طرف صحت انصاف کارڈ سکیم کو انتہائی غیر منظم طریقے سے چلایا جا رہا ہے ابھی تک سو فیصد عوام اس سہولت سے فیضیاب نہیں ہو سکے۔اگر تعلیم کے شعبہ پر نظر ڈالی جائے تو خیر کی کوئی خبر سنائی نہیں دیتی۔


جس حکومت نے گورنر ہاؤس کو لائبریری اور وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے جیسے بڑے بڑے خواب دکھائے اور اْن کو پورا نہ کیا تو ایسی حکومت سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ بجٹ امیر کے لئے فائدہ مند جبکہ غریب کے لیے نا کافی اقدامات کا مجموعہ ہے، اس سے بڑھ کر دیکھنا یہ ہے کہ ٹیکسٹائل برآمد کنندگان، کاغذ و بورڈ، سٹیل، دواسازی، پینٹ، کیمیکلز، الیکٹرانکس، کیبلز، فائبرآپٹکس اور آٹو موبائل وغیرہ پر ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں کمی سے عوام کو فائدہ پہنچتا بھی ہے یا نہیں؟یا پھر ہمیشہ کی طرح ملک کا پرائیویٹ سیکٹر اور اشرافیہ ہی اس سے بہرامند ہوتا رہے گا، کیونکہ وطن عزیز میں تو مرنا بھی اتنا ہی مشکل ہے کہ جتنا کسی سفید پوشں کا زندگی گزارنا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :