اُمیدوں سے افسوس تک……‎‎

ہفتہ 17 جولائی 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

سرطان ایک انتہائی موذی اور جان لیوا مرض ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2020ء  کے اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں اب تک 10 ملین افراد سرطان کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں،جبکہ کینسر ریسرچ یو کے اور امریکن کینسر سوسا ئٹی کی حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2020ء تک 19.3 ملین نئے کیسز رجسٹر ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند سال کے اعداد و شمار کے مطابق کینسر کے مریضوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔

جہاں پوری دنیا اس مرض کی روک تھام کے لیے خصوصی اقدامات کیے جا نے کے ساتھ ساتھ آگاہی مہم بھی چلا رہی ہے، جس میں حکومتیں، فلاحی تنظیمیں اور عوام مل کر اس مرض کے خاتمے کے لیے جہد مسلسل کر رہی ہیں۔ مگر پاکستان میں حکومتی سطح پر اس مرض کی تحقیق، تشخیص اور علاج پر کبھی خصوصی توجہ نہیں دی گئی خاص طور پر کورونا کی وجہ سے باقی تمام طرح کے مریضوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

WHO کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی کل تعداد 329547 ہے،جن میں سے 14117 اموات اور 17888نئے کیسز رجسٹر ہوئے ہیں جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں مگر ابھی تک پاکستان بھر میں صرف پانچ ہسپتال کام کر ہے ہیں،جن میں شوکت خانم ہسپتال لاہور، بیت السکون ہسپتال کراچی، کرن کینسر ہسپتال کراچی، نیوکلیئر میڈیسن آنکالوجی اینڈ ریڈیوتھراپی انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد، انمول انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن اینڈ آنکالوجی لاہور ہسپتال خصوصی طور پر نمایاں ہیں۔


پاکستان میں 1984ء میں پہلی مرتبہ اس موذی مرض کے علاج کے لیے انمول ہسپتال لاہور کی بنیاد رکھی گئی جو آج بھی بلا تفریق پاکستانی عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہے جس کی ہیت اور سہولتیں اس میں آنے والے مریضوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں مگر پھر بھی اس ادارے کے سابقہ ڈائریکٹر ڈاکٹر مقبول شاہد اور موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر ابو بکر شاہد کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے غریب کینسر کے مریض در در کی ٹھوکریں کھانے کی بجائے بہترین اور مفت علاج کی سہولتوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔

یہ ادارہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے تحت کام کر رہا ہے۔ چیئرمین اٹامک انرجی کے مطابق پاکستان میں کینسر کے 80 فیصد مریضوں کا علاج پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے18 میڈیکل سنٹرز میں ہوتا ہے اس لیے گزشتہ سالوں میں عوام کو مزید سہولتیں فراہم کرنے کے لیے چار نئی مشینوں میں سٹیٹ آف دی آرٹ ریڈیشن مشین لائنک، ایم آر آئی، سپیکٹ سکین اور ڈیکسا سکین شامل ہیں جو  وقت کی اہم ضرورت تھی۔


دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے بھی 1992ء کے ورلڈ کپ کی جیت کو شوکت خانم ہسپتال کے نام کر دیا اور پھر دن رات محنت کر کے عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے کے لیے ایک عظیم خواب کی بنیاد رکھی، عوام نے دل کھول کر امداد کی اور اْس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اس ہسپتال کے لیے حکومت کی طرف سے زمین بھی الاٹ کی اور ہسپتال کے لئے ذاتی طور پر گراں قدر رقم بھی عطیہ کی، بالآخر 1994ء میں شوکت خانم ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی اور بہت ہی قلیل عرصہ میں اس پروجیکٹ کی تکمیل ہو ئی، بلکہ اس پروجیکٹ میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا یہاں تک کہ شوکت خانم میموریل ہسپتال و لیبارٹری سینٹر پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا،مگر حال ہی میں میری اْمیدیں تب افسوس میں تبدیل ہوئیں جب مجھے اپنے ذاتی مشاہدے اور تحقیق سے علم ہوا کہ اس ادارے میں صرف چالیس سال کی عمر تک کے مریضوں کا علاج زکوٰۃ فنڈ سے ہوتا ہے، جو لوگ ہسپتال کو دیتے ہیں وہ بھی اگر مریض اس ادارے کے معیارات و شرائط پر پورا اْترتا ہو ورنہ اْس کو شوکت خانم کے بزنس منیجر کے حوالے کر دیا جاتا ہے جس کی سو فیصد کوشش ہوتی ہے کہ وہ مریض کی تمام تر حالات و مشکلات بیان کرنے کے باوجود اس کو پرائیویٹ علاج کا مشورہ دیتا ہے اور اگر مریض کینسر کی پہلی سٹیج پر ہو تو بھی اس کے علاج کے لئے پچیس سے تیس لاکھ روپے ڈیمانڈ کیے جاتے ہیں اور اگر رقم نہ ہو تو علاج کرنے سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے جہاں تک کہ ان کو زکوٰۃ تک کی رقم آفر نہیں کی جاتی جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔


میں جانتا ہو ں کہ ہسپتال کے وسائل محدود ہیں ہر مریض کا علاج مفت کرنا ممکن نہیں ہوتا مگر میں وزیر اعظم سے التماس کروں گا کہ عوام کو علاج کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں علاج کے لیے کسی کو بھی اپنی  مرضی سے ضرور چن لیں مگر عمر کی حد تو ختم کریں کیونکہ چالیس سال سے کم عمر کے افراد کو جینے کا جتنا حق ہے اتنا ہی حق چالیس سال سے زائد عمر کے افراد کو بھی ہے، کیونکہ زندگی موت تو اللہ کے اختیار میں ہے کس کو معلوم کون کتنی عمر لکھا کر آیا ہے اس طرح کی پالیسی ہیومن رائٹس کے بھی منافی ہے کیونکہ علاج کی سہولت سب کو یکساں میسر ہونی چاہیے اور اگر وسائل کم ہیں تو پشاور و کراچی پروجیکٹ شروع کرنے کی بجائے ایک پروجیکٹ پر ہی کام کیا جانا چاہیے تاکہ اس رقم کو کلی طور پرغریب مریضوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکے۔

یہ بات ابھی تک سمجھ سے باہر ہے کہ وزیراعظم نے سرطان کے مریضوں کی امداد کے لیے اس پروجیکٹ کو شوکت خانم کے نام سے شروع کیا مگر ملک کا وزیر اعظم بننے کے بعد ابھی تک حکومتی سطح پر کینسر کے خاتمے، مزید ہسپتال بنانے اور جدید مشینری کے حصول کے لیے اس طرح کام نہیں کیا جس کی اس حکومت سے توقع کی جا رہی تھی، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر فوری ایکشن لیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ شوکت خانم سے علاج کے لیے منقسم نظام کو ختم کرکے پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر علاج کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :