اسلامو فوبیا کی وجوہات اور ہماری ذمہ داریاں ‎‎

جمعرات 1 جولائی 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

اسلامو فوبیا کی وجوہات اور ہماری ذمہ داریاں ایک وسیع و متنوع موضوع ہے، جس پر شاید ایک کالم میں لکھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کوزے میں دریا کو بند کرنا، مگر اس کو سمجھنا ہم سب کے لئے انتہائی اہم اور وقت کی ضرورت ہے،اس لئے مَیں اس کے چند بنیادی پہلو گوش گزار کرنے کی کوشش کروں گا، جن میں سے کچھ حصے راشد الزاھری کے اقتباسات سے ماخوذ کئے گئے ہیں، چونکہ فرد سے اجتماعیت جنم لیتی ہے اور اجتماعیت سے معاشرہ پیدا ہوتا ہے،اِس لئے پہلے تو ہمیں انفرادی طور پر اپنی اور دوسروں کی اصلاح و رہنمائی کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک بہترین معاشرہ معرض وجود میں لایا جا سکے۔

ہمارے ایمان و عقائد، حقوق وفرائض و عبادات، حلال و حرام، معاملات اور اخلاق باہمی کی بنیاد بے شک قرآن و سنت پر ہونی چاہئے،اس کے بعد دوسرا مرحلہ ہمیں اپنے خاندان کی تربیت کی طرف توجہ دیتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم کس طرح اپنے پیاروں کو اللہ کے دین کی طرف راغب کر سکتے ہیں، کیونکہ اسلام ایک بہترین ضابطہ حیات ہے،جو ہمیں انسانیت سے محبت اور اس کی حرمت کا درس دیتا ہے۔

(جاری ہے)


تیسرا مرحلہ اپنی بد دیانتی کو ختم کرنا ہے، جس کی وجہ سے اقوام عالم میں مسلمانوں کی قدر و اہمیت اور اعتماد میں شدید کمی آئی ہے۔ یہ عمل نہ صرف کسی بھی فرد، معاشرے اور قوم کے وقار کو مجروح کرتا ہے، بلکہ ہماری بحیثیت اْمت شناخت کو منفی انداز میں پیش کرنے کے لئے کافی ہے، کیونکہ جب تک ہمارے لین دین، تجارت اور باہمی معاملات جھوٹ اور فریب سے پاک نہیں ہوں گے تب تک ہم مسلمانوں کی درست تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے سے قاصر رہیں گے۔

چوتھا اور آخری مرحلہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل نو ہے،جہاں مسلمانوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ معاشرے کے معذوروں، غریبوں، بے سہاروں، غیر مسلموں، جانوروں، حتیٰ کہ چرند پرند کی جان تک بھی اتنی عزیز ہو جتنی کسی صاحب حیثیت کی ہوتی ہے، جیسے قرآن و حدیث میں اس کا حکم ہے۔
برطانوی رکن پارلیمینٹ و دانشور جم مارشل نے مسلمانوں کی تین تصویریں پیش کرتے ہوئے کہا کہ“ ایک تصویر وہ ہے جو ہمارے بڑوں نے ہمارے ذہنوں میں بٹھا رکھی ہے اور نسل در نسل ہمارے ذہنوں میں منتقل ہوتی آرہی ہے، (2) دوسری تصویر وہ ہے جب ہم تاریخ میں اسلام اور تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسلام کی ایک بالکل مختلف تصویر ہمارے ذہنوں میں بنتی ہے، (3) لیکن جب ہم اپنے درمیان رہنے والے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان دونوں تصویروں سے مختلف ایک الگ تصویر بن جاتی ہے۔

اسلام کی ان تین الگ الگ تصویروں نے ہمارے ذہنوں میں کنفیوژن قائم کر رکھا ہے، اگر مسلمان اس کنفیوژن کو دور کرنے کی کوئی صورت نکال سکیں تو مغرب میں مقیم بہت سے لوگ اسلام کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لئے تیار ہیں …… ”میری نظر میں جم مارشل کی یہ بات درست ہے…… جارج گیلوے نے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ ہم مسلمانوں کے لئے ان کا فرقہ یا مذہب دیکھ کر پالیسیاں نہیں بناتے، ہمارے لئے سب مسلمان ایک جیسے ہیں اور ہمیں کسی فرقے کا کچھ علم نہیں ہوتا،جو امت کو اتفاق باہمی اوردوسرے کے دُکھ درد کو اپنا دکھ سمجھنے کا درس ہے۔

ہمیں بحیثیت اْمت پوری شدومد سے اس پر کام کرنے کی  ضرورت ہے۔
ہماری ذمہ داری کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم صورت حال سے باخبر ہوں، مطالعہ کریں، معلومات حاصل کریں، اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ہم نے بے خبری کو مسائل کا حل سمجھ رکھا ہے، جو قطعی طور پر درست نہیں ہے۔ بے خبری کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی،جیسے شتر مرغ صحرا میں طوفان کو دیکھ کر اپنا سر ریت میں چھپا لیتا ہے اور کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے، ہم بھی حالات سے آنکھیں بند کر کے ان کی سنگینی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں،جو ایک غلط طریقہ ہے، اس لئے ہمیں سب سے پہلے باخبر رہ  حالات کو پوری طرح سمجھنا ہو گا۔

دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ مختلف سطحوں، دائروں اور شعبوں کے بارے میں معلومات اور واقفیت حاصل کرنے کے بعد ہم جس شعبہ میں اور جس سطح پر کچھ کر سکتے ہوں تو ضرور کریں۔ اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں سے بے خبر و لاتعلق نہ رہیں، کیونکہ لا تعلقی جرم کے مترادف ہے۔اس لئے ہم میں سے ہر شخص کو حالات، مسائل اور مشکلات کا پوری طرح ادراک رکھتے ہوئے اپنی محنت کا شعبہ اور میدان منتخب کرنا چاہئے، اور اپنے ذوق اور حالات کے دائرے میں جو کچھ بھی کسی بھی سطح پر ہم کر سکتے ہیں اس سے دریغ نہیں کرنا چاہئے تاکہ ہم اسلامو فوبیا کو معاشرے سے مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :