"محنت کامیابی کی کنجی ہے مگر کیسے؟؟"

جمعرات 24 ستمبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پچھلے دنوں جھنگ سے سرگودھا سفر کر رہا تھا تو میرے ساتھ والی سیٹ پر علی احمد براجمان تھے حال احوال پوچھنے کے بعد انہوں نے اپنے والد کی جدوجہد کا تفصیلی واقعہ سنایا جو میرے لئے سبق آموز تھا۔ میں نے یہ مناسب سمجھا کہ کیوں نہ اِس حقیقت کو اپنے قلم کی زینت بنایا جائے ۔
علی احمد نے بتایا کہ اُن کے والد صاحب نے کافی دیر سے شادی کی ۔

ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہی اُن کی کُل وراثت ہیں ۔والد صاحب ترکھان تھے اور لکڑی کا کام کرتے تھے، گاؤں میں گھر کے باہر نیم کا بہت بڑا درخت تھا جس کے سائے میں والد صاحب نے ایک کھوکھہ بنا رکھا تھا(کھوکھہ لکڑی کے چھوٹے سے کمرے کو کہتے ہیں) ۔اِس کھوکھے میں والد صاحب صبح سے شام تک لکڑی کی کٹائی اور لکڑی سے چیزوں کو بنانے میں مگن رہتے ۔

(جاری ہے)

ہمارا گھر کچی اینٹوں سے بنا تھا جو عموماً ہمارے دیہاتوں میں ایسے مکان بنانے کا رواج ہے اور ایسے گھر عموماً وہی بناتے ہیں جن میں پکے گھر بنانے کی سکت نہیں ہوتی۔

گھر کا گزر بسر بڑی مشکل سے ہو رہا تھا ۔والد صاحب گھر کا واحد سہارا تھے جو ضعیف العمر بھی تھے اور اکثر بیمار بھی رہتے تھے ۔ہم دو بھائی بشمول دو بہنیں گاؤں کے ہی گورنمنٹ سکولز میں زیرِ تعلیم تھے۔ والد کی بڑی خواہش تھی کہ ہم بڑے ہو کر افسر لگیں اور یہ تقریباً تمام والدین کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد پڑھ لکھ کر اپنا نام پیدا کرے تاکہ وہ معاشرے میں بہتر زندگی گزار سکیں۔

وقت تیزی سے گزر رہا تھا ۔علی احمد بھائی بھی اُسی رفتار سے اپنا حالِ زندگی بیان کر رہے تھے کہ اُن کی بہتر زندگی کی شروعات کیسے ہوئی اور آج وہ اِس مقام پر موجود ہیں تو کس وجہ سے ہیں ۔علی احمد کا کہنا تھا کہ والد صاحب نے بڑی محنت مشقت کر کے پڑھایا۔ہم نے حالات کے مطابق چلنا سیکھ لیا تھا، روکھی سوکھی کھا لیتے تھے کیونکہ گھر کے حالات بہتر نہیں تھے کہ اپنی خواہشات اپنے والدین کے سامنے رکھتے۔

خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ جب میری نوکری لگی اور میں اِس قابل ہوا کہ والد کی ساری زندگی کی محنت اُن کے قدموں میں نچھاور کروں لیکن افسوس وہ اِس دنیا سے جا چکے تھے ۔ علی بھائی نے بتایا کہ وہ سب سے بڑے تھے اِس لیے والد کی وفات کے بعد اُن کے کندھوں پر بھاری زمہ داری آن پہنچی ۔والدہ صاحبہ بھی کپڑوں کی سلائی کر کے والد صاحب کا ہاتھ بٹاتی رہیں لیکن اِس کے باوجود گھر میں خوشحالی نہیں تھی۔

جب ہم اِس قابل ہوئے کہ خوشحال زندگی گزار سکتے تھے تو یہ خوشیاں والد صاحب نہ دیکھ پائے ۔علی احمد نے کہا کہ میں ایک کمپنی میں بطور منیجر کام کر رہا ہوں اور اچھی تنخواہ ملتی ہے جبکہ چھوٹا بھائی سکول میں ٹیچر ہے۔آج ہم جو بھی ہیں یہ سب اپنے والد کی محنتوں کا ہی نتیجہ ہے ۔یہ بتاتے ہوئے علی احمد کے چہرے پر افسردگی بھی نمایاں تھی لیکن اِس داستان کے اختتام پر ہلکی سی مسکراہٹ یہ بتا رہی تھی کہ آج اُس محنت کا پھل ضرور مل چکا ہے جس کے لئے اُس کے والدین نے محنت کی اور انہوں نے اِسکے لئے لمبا انتظار کیا ۔

آج اُسی کی بدولت تمام بہن بھائی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔ میں نے علی احمد کی یہ گفتگو بڑے غور سے سنی اور اِسی طرح ہمارا سفر بھی بہتر طریقے سے اختتام کو پہنچا ۔اِن باتوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا جو حقیقت بھی ہیں کہ والدین اپنی اولاد کی خاطر اپنی زندگی کی خوشیوں کو قربان کرتے ہیں تاکہ اگر آج ہم پسینہ بہاتے ہیں تو کل کو چل کر ایسی سخت محنت ہماری اولاد کو برداشت نہ کرنی پڑے۔

یقیناً ایسا خوبصورت رشتہ صرف والدین کا ہی ہوتا ہے جو ہر موسم، ہر حالات میں قائم و دائم رہتا ہے۔والدین کی توقعات پر پورا اُترنا ہم سب پر لازم ہے کیونکہ ہماری کامیابیوں سے جو خوشی وہ محسوس کرتے ہیں وہ کوئی اور محسوس نہیں کر سکتا ۔اِس لیے یہ بات ضروری ہے کہ والدین کا احترام کریں اور اُن کی زندگی میں ہی ایسے کام کر کے دکھائیں تاکہ وہ اُنہیں سوچ کر خوش ہوتے رہیں، اُنہیں تسکین ملتی رہے .اِس لیے اسلام نے بھی والدین کے حقوق بہت بلند رکھے ہیں اور اِن کی نافرمابرداری کرنے والا دنیا وآخرت دونوں میں سُرخرو نہیں ہو سکتا ۔

رسول پاک صلی الله عليه و آلہ وسلم نے والد کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد کو نام سے نہ پکارا کرو اور نہ اِن کے آگے چلا کرو اور نہ ہی اِن سے پہلے بیٹھو۔
یہ ہم پر ضروری ہے کہ اپنے والدین کے چہروں کی طرف ضرور دیکھنا چاہئے تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ وہ ہمارے بہتر مستقبل کے لئے کتنی زیادہ محنت اور مشقت کرتے ہیں اور ہمیں بھی اِن کی قدر کا احساس ہو تاکہ ہم دنیا میں کامیاب ہو کر بہتر زندگی گزار سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :