"مسائل ہی مسائل"

جمعہ 19 نومبر 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کا عام آدمی آج کئی مسائل سے دوچار ہے، چاہے وہ مہنگائی ہو، بےروزگاری ہو یا پھر دیگر معاشرتی مسائل، اِن مسائل میں گھِرا انسان کتنا بےبس ہوگا، اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں،
کیا یہ مسائل خود آتے ہیں یا اِنکو دعوت دی جاتی ہے! یقیناً ہماری طرف سے ہی کچھ ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جو بہت سے مسائل کی وجہ بنتے ہیں، یا تو ہم اِن مسائل کے نتائج سے بےخبر ہوتے ہیں یا پھر ہم کسی کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں،
ایسا قطعاً نہیں کہ دنیا کا کوئی کونہ، کوئی بھی علاقہ یا کوئی شخص مسائل سے خالی ہو،ہاں مسائل کم زیادہ ضرور ہوتے ہیں لیکن ہر شخص مختلف مسائل میں گھرا ہوتا ہے اور اشخاص کے مسائل ملنے سے معاشرے کے مسائل بنتے ہیں اور کئی معاشروں کے مسائل ملنے سے قوم کے مسائل بنتے ہیں جو وطن کے مجموعی مسائل بھی کہلاتے ہیں، پاکستان بھی آجکل کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے، اصل میں پاکستان مسائل میں خود نہیں گھرا بلکہ بہت سے علاقوں یا اشخاص کے مسائل مل کر قومی مسائل بنے ہیں، پاکستان کے مسائل کی فہرست تو ہمیشہ سے ہی طویل رہی ہے لیکن موجودہ حالات میں مسائل طویل ترین ہو چکے ہیں، اب کی بار تو ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہوا کہ ہم کسی کے بہکاوے میں آ گئے اور مسائل کو ایسے دعوت دی جیسے "آ بیل مجھے مار" والی کہاوت بولی جاتی ہے،
2018 سے پہلے اور 2021 والے پاکستان میں بہت فرق ہے، اب کا پاکستان اتنے مسائل میں گھر چکا ہے جس سے نکلنے کے لئے ناجانے کتنے سال لگ جائیں، پہلے تو ایسے ہوتا تھا کہ غریب طبقے پر مسائل تو رہتے ہی تھے لیکن اب کی بار مڈل کلاس طبقہ بھی مسائل کی چکی میں پِس چکا ہے اور متعلقہ حکام اِن حالات کو تبدیلی کا نام دے رہے ہیں، حالانکہ موجودہ حالات کو تباہ دلی بولا جائے تو کم نہ ہوگا کیونکہ گزرے وقتوں میں جب بادشاہ یا باہر سے آئے حملہ آور ہندوستان پر حملہ کرتے تھے تو اُنکا مشن دلی پر اپنی سلطنت کا جھنڈا لہرانا اور فتح کر کے اپنی سلطنت قائم کرنا ہوتا لیکن وہ اِس چکر میں دلی کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان پہنچاتے، آجکل تبدیلی کے نام پر حکمرانوں نے بھی پاکستان کو تباہ دلی بنا دیا، غریب آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے، مڈل کلاس طبقہ بھی کئی آفتوں میں جکڑا گیا ہے اور امیر شخص کو کل کی فکر ستانے لگی ہے کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، ایسا نہیں کہ تبدیلی سرکار نے حالات بہت زیادہ خراب کر دیے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حالات خرابی سے بہت زیادہ خرابی کی طرف تیزی سے گامزن ہیں، اِن حالات میں مسائل سے گھری عوام میں مایوسی بڑھنے لگی ہے، تبدیلی سرکار سے مزید ایسی تبدیلی کی پناہ مانگی جا رہی ہے، اپوزیشن بےبس اور لاچار دکھتی ہے، یوں سمجھ لیا جائے کہ اپوزیشن کے جسم پر بھی تشدد کے نشانات واضح ہیں کیونکہ جس طرح تین سالوں میں اپوزیشن پر احتساب کے نام پر انتقام کا ڈنڈا برسایا گیا،اپوزیشن کے لئے مذاحمت کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے، اداروں کی شخصیات حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہیں، ایسے میں اپوزیشن کرے تو کرے کیا، عوام جائے تو جائے کہاں، مسائل بےپناہ ہیں اور ہر کسی کو ذاتی مفادات کے لالے پڑے ہیں، بےبسی کے بعد اپوزیشن یہ بھی چاہتی ہے کہ یہ حکومت بیڈ گورننس سے خود کے ہاتھوں ہی اختتام پذیر ہو جبکہ حکومت کو عوام کے حالات سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ وہ موجودہ بدترین حالات کے بعد بھی اگلے پانچ سال سمیٹنے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تبدیلی سرکار کو خطرناک حملہ آوروں کا بھی سامنا نہیں وہ اِن حالات میں عوام کی بہتری کے لئے زیادہ نہیں تو کچھ اقدامات تو کرتی لیکن مجال ہے عوام کی آہ و بقاء حکومت کے ایوانوں میں سنائی دے رہی ہو ۔

(جاری ہے)

۔
خیر! اللہ کے بعد عوام کا ترازو ہمیشہ تیار رہتا ہے، حکمرانوں کے لئے اللہ کی عدالت کے بعد عوام کی عدالت بڑی ہوتی ہے، ایک فیصلہ تو اوپر والا کرے گا اور دوسرا فیصلہ عوام کی عدالت کرے گی، اگر آج آپ سہاروں سے بچ بھی گئے یا عوام کی اکثریت کی منشاء کے بغیر دوبارہ آپکو تخت نصیب ہوا تو عوامی سمندر ایک نہ ایک دن فیصلہ ضرور سناتا ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے ،پھرچاہے آپ اقتدار کے طول کے لئے طاقتوروں کے ساتھ مل کر جتنے مرضی پیار ومحبت کے معاہدے کر لو، عوامی مسائل آپکا پیچھا ضرور کرینگے اور پھر انہی مسائل میں پِسی عوام آپکو وہاں تک چھوڑ کر آئے گی کہ واپسی کا راستہ ممکن نہ ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :