افغان جنگ کا فاتح کون، امریکہ یا طالبان؟

ہفتہ 10 جولائی 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

افغانستان ہمیشہ سے ہی کئی حملہ آوروں کی زد میں رہا اور موجودہ دور کی پچھلی کئی دہائیوں سے تین سپر پاورز بھی افغانستان پر حملہ آور ہو چکی ہیں، برطانیہ، روس اور آخر میں امریکہ نے افغانستان پر کئی سال تک قبضہ جمائے رکھا اور اپنے کئی اہداف حاصل کیے اور کچھ میں ناکامیوں کا بھی سامنا رہا، لیکن اِس وسیع موضوع میں جانے کی بجائے افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان کے ساتھ امریکہ کی بیس سالہ جنگ کی روداد جاننا ضروری ہے کہ آخر کار اِس جنگ کا فاتحہ کون ہے اور امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیوں کیا، یہ 11 ستمبر 2001 کی بات ہے جب امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر جہاز ٹکرائے گئے اور اِس سانحے کے نتیجے میں تین ہزار سے زائد امریکی شہری ہلاک ہوئے، امریکہ نے اِس واقعے کا ذمہ دار القاعدہ کو ٹھہرایا، اُس وقت اِس تنظیم کے سربراہ اُسامہ بن لادن تھے جو افغانستان میں قیام پزیر تھے، جب امریکہ میں 9/11 کا سانحہ ہوا تو افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی جو القاعدہ کی پشت پناہی کر رہی تھی اور القاعدہ کے کئی اور رہنما بھی افغانستان میں قیام پذیر تھے، جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا تو امریکہ کے صدر بش نے ساری صورتحال کے مدِنظر طالبان کے سامنے کچھ شرائط رکھیں اور اِن شرائط کو ہر حال میں پورا کرنے پر زور دیا اور کہا کہ اگر ہماری اِن شرائط کو طالبان کی طرف سے پورا نہ کیا گیا تو افغانستان پر حملہ کر دیا جائے گا، شرائط یہ تھیں کہ 1؛ افغانستان سے القاعدہ کا خاتمہ کیا جائے اور افغانستان کی طالبان حکومت اِس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرے، 2؛ اسامہ بن لادن اور دیگر کچھ القاعدہ رہنماؤں کو امریکہ کے حوالے کیا جائے 3؛ طالبان کی قید میں موجود امریکیوں اور تمام غیر ملکیوں، خصوصاً جو امریکہ کے اتحادی ہیں، اُنکو امریکہ کے حوالے کیا جائے ۔

(جاری ہے)

4؛ افغانستان میں غیر ملکیوں پر حملے کرنے والے دہشتگردی کے مراکز کو بند کیا جائے یا ضمانت دی جائے کہ افغانستان کی سرزمین کبھی بھی دہشتگردی کے لئے استعمال نہیں ہوگی، 5؛ امریکہ پر حملہ آور ہونے والے دہشتگروں اور اِن کے مراکز تک رسائی کے لئے امریکہ کو اجازت دی جائے یا اِنکے خلاف افغانستان کی طالبان حکومت خود کارروائی کرے
6؛ افغانستان میں موجود تمام صحافیوں اور سفارتکاروں کو تحفظ فراہم کیا جائے، یہ تمام مطالبات طالبان حکومت کو پیش کیے گئے، طالبان نے امریکہ پر حملہ ہونے کی مذمت بھی کی اور افسوس کا اظہار بھی کیا لیکن افغانستان کی طالبان حکومت نےامریکہ کے اِن مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جس بنا پر امریکہ نے کچھ ہی دنوں بعد 17 اکتوبر 2001 کو افغانستان پر حملہ کر دیا، اِس حملے کے بعد امریکہ اور طالبان کے مابین باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا، یہ جنگ بیس سال جاری رہی اور تب سے لے کر آج تک لاکھوں افغان شہری ہلاک اور ناجانے کتنے زخمی ہوئے، افغانستان کا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا، کئی لاکھ افغانی ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، یعنی کہ افغانستان کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا، اِس جنگ کے خطرناک اثرات پاکستان پر بھی پڑے، پاکستان میں بھی دہشتگردی کا آغاز ہو گیا، پاکستانی طالبان نے بھی ریاستِ پاکستان کے خلاف ہتھیار اُٹھا لیے کیونکہ پاکستان افغان طالبان کے خلاف امریکہ کی مدد کر رہا تھااور امریکہ کے کہنے پر پاکستان نے کئی طالبان رہنماؤں اور اِنکے مراکز کو نشانہ بھی بنایا، اِس پرائی جنگ میں پاکستان کا بھی بےپناہ نقصان ہوا، تقریباً ایک لاکھ کے قریب پاکستانی دہشتگرد حملوں میں مارے گئے اور اربوں ڈالرز کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا، معیشت تباہ ہوئی اور امن وامان خراب ہوا، یعنی کہ اِس جنگ میں پاکستان اور افغانستان کا مجموعی طور پہ بےپناہ نقصان ہوا، اِس جنگ میں افغانستان کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا اور باقی نقصان علیحدہ ہے، امریکہ کا نقصان کیا ہوا؟  سوائے بلین ڈالرز افغان جنگ میں لگائے لیکن بدلے میں بہت کچھ کما بھی لیا کیونکہ ترقی یافتہ یا طاقتور ممالک اگر وسائل لگائیں تو بہت سے ذرائع سے دوگنا حاصل بھی کرتے ہیں اور یہ کاروبار پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے، جو مطالبات بیس سال پہلے امریکہ نے طالبان کے سامنے رکھے تھے اُن میں سے زیادہ تر پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے یا امریکہ نے اپنے اہداف مکمل کر لیے ہیں، حال ہی میں قطر کے دارلحکومت دوحه میں افغان طالبان اور امریکہ کے مابین معاہدہ ہوا، اِس معاہدے کی رو سے بھی اگر دیکھا جائے تو امریکہ صرف ایک ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے کہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں تک رسائی ممکن نہیں بنائی جا سکی لیکن اِس حوالے سے بھی امریکہ مکمل ناکام نہیں رہا کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر امریکہ نے ڈرونز طیاروں کی سہولت بھی حاصل کر لی ہے جو اِس حوالے سے ہمیشہ کی طرح موثر ثابت ہو سکتے ہیں، باقی مطالبات کو اگر دیکھا جائے تو امریکہ نے القاعدہ اور طالبان کے کئی مرکزی رہنماؤں کو ہلاک کر دیا، کئی گرفتار بھی کیے گئے،
القاعدہ جیسی عالمی دہشگرد تنظیم یا طالبان جیسی عسکریت پسند تنظیموں کو کافی حد تک کمزور بھی کر دیا، جب سے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا ہے، امریکہ کی سرزمین دہشت گرد حملوں سے مکمل طور پہ محفوظ رہی، امریکہ کے دوسرے بڑے اتحادی ممالک بھی دہشتگردی سے پاک رہے،دوحہ معاہدے کی رو سے امریکہ نے طالبان سے یہ یقین حاصل کیا ہے کہ امریکی اور اتحادی افواج کی مکمل واپسی تبھی ممکن ہے جب افغانستان کی سرزمین کسی بھی دہشتگردی کے لیے بطور سہولت کار استعمال نہیں ہو گی ،طالبان نے اِس شرط کو بھی مان لیا جس بنا پر امریکی افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں، امریکہ کے افغانستان سے نکلنے تک کابل پر امریکہ نواز حکومت قائم رہی اور طالبان بھی امریکی افواج کے ہوتے ہوئے افغانستان پر حکومت کرنے میں ناکام رہے، امریکہ کا کوئی بڑا لیڈر یا شہری طالبان کی قید میں نہیں ہے یعنی کہ امریکہ اِس مطالبے پر بھی عمل درآمد کروانے میں کامیاب رہا ہے جو آج سے بیس سال پہلے طالبان حکومت کے ساتھ کیا گیا، امریکہ آج ماضی سے زیادہ مضبوط ہے لیکن طالبان ماضی سے کافی حد تک کمزور ہو گئے، جس کا واضح ثبوت بیس سالوں میں امریکی افواج کے ہوتے ہوئے افغانستان پر طالبان کی رِٹ نہ ہونے کے برابر تھی اور امریکی افواج کے نکلنے کے بعد ہی افغان طالبان اپنے پنجے دوبارہ گاڑ رہے ہیں ،آج امریکہ آسانی سے راستہ بنا کر کامیابی سے نکلنے میں کامیاب ہوا لیکن افغان طالبان بھی اپنی کھوئی ہوئی رِٹ بحال کر رہے ہیں، آخر امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا ؟، یہ موضوع پھر سہی لیکن اِن حقائق کو دیکھنے کے بعد یہ کہنا بجاہے کہ امریکہ افغان طالبان کے خلاف بیس سالہ جنگ نہ صرف جیت چکا ہے بلکہ امریکہ نے خود کو زیادہ محفوظ بھی بنایا ہے اور افغانستان کو تباہ کرنے کے بعد بھی اپنے مطالبات منوا ہی لیے، دوحه معاہدے کے بعد فلحال کے لئے دونوں طرف سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں لیکن طالبان افغانستان کی سالمیت اور ہمسایوں کے لئے ضرور خطرہ بن چکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :